بچوں سےمتعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے ایک اندازےکے مطابق ، 2022 تک دنیا بھر میں بچوں کی ایک ریکارڈ تعداد ، چار کروڑ 33 لاکھ ، جبری نقل مکانی کی زندگی گزار رہی تھی جن میں سےبیشتر نے اپنا پورا بچپن اس حالت میں گزارا۔
گزشتہ دہائی میں اپنے گھر چھوڑنےپر مجبور ہونے والے بچوں کی تعداد دوگنی ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں پناہ گزینوں اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے بچوں کے تحفظ کی کوششیں متاثر ہوئیں۔ یوکرین کی جنگ نے 20 لاکھ سے زیادہ یوکرینی بچوں کو ملک چھوڑنے اور دس لاکھ سے زیادہ بچوں کو اندرون ملک بے گھر ہونے پر مجبور کیا ۔
یونیسیف کی ایکزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ ایک عشرے سےزیادہ عرصے سے اپنے گھروں سے مجبوراً نقل مکانی کرنےوالے بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور ان کے لیے عالمی سطح پر امدادی کوششیں بدستور ناکافی ہیں ۔ اس اضافے کی وجہ دنیا بھر میں تنازعوں ، بحرانوں اور آب و ہوا کے سانحوں میں اضافہ ہے ۔لیکن یہ صورتحال اس مسئلے کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ دنیا کی بہت سی حکو متوں کی جانب سے یہ یقینی بنانے کےلیے تسلی بخش اقدامات نہیں کیے کہ ہر پناہ گزیں اور اندرون ملک بے گھر ہونے والا بچہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے، صحت مند رہ سکے اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بھر پور طریقے سے ترقی دے سکے۔
گزشتہ سال کے آخر تک جبری طور پر بے گھر ہونے والے چار کروڑ 33 لاکھ بچوں میں سے تقریباً 60 فیصد نے تنازعوں اور تشدد کے باعث اندرون ملک نقل مکانی کی تھی۔ پناہ کے متلاشی بچوں کی ایک کروڑ 75 لاکھ کی تعداد بھی ایک نیا ریکارڈ تھی جس میں سوڈان کے تنازعے سے بے گھر ہونے والے بچوں سمیت 2023 میں نقل مکانی کرنے والے نئے مہاجر بچے شامل نہیں ہیں۔
اندرون ملک بے گھر ہونےوالے اور پناہ گزین بچے اکثر اوقات سب سےزیادہ خطرے سے دوچار لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان میں سے بہت سوں کو تعلیم ، صحت کی دیکھ بھال، معمول کے حفاظتی ٹیکوں، اور سماجی تحفظ کی سہولت دستیاب نہیں ہوتی ۔
بہت سے بچوں کے لیے یہ بے گھری طوالت اختیار کر رہی ہے۔آج جو بچے بے گھر ہو رہےہیں ان میں سے بیشتر اپنا پورا بچپن بے گھری میں گزاریں گے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ہونےوالی نقل مکانی میں اس صورت میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے اگر عالمی د رجہ حرارت سے نمٹنے اور آب وہوا کی تبدیلی کے بحران میں فرنٹ لائن میں رہنے والی کمیونٹیز کو تیار کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے ۔
رسل نے کہاہے کہ" بے گھری کے محرکات سے نمٹنے اور بے گھر ہونے والے بچوں کے لیے پائیدار حل فراہم کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ سیاسی عزم درکار ہو گا۔ مہاجرین ، تارکین وطن اور بے گھر بچوں کی ایک ریکارڈ تعداد ایک مشترکہ ردعمل کی متقاضی ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب حکومتیں بے گھر بچوں اور خاندانوں کے لیے مل کر کام کرتی ہیں تو پائیدار تبدیلی واقع ہوتی ہے۔مل کر کام کرنے سے ہم انہیں محفوظ ،صحت مند رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں تعلیم اور تحفظ بھی فراہم کر سکتے ہیں"۔
یونیسیف نے کسی بھی بچے کو پیچھے نہ چھوڑنے پر زور دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ:
* بچوں کے طور پر ان کی پناہ گزین، مہاجر اور بے گھر بچوں کی حیثیت کو ان کے تحفظ کے حقوق کے ساتھ ترجیحی بنیاد پر تسلیم کیا جانا چاہئے ۔
*ان بچوں کو نقل و حرکت ، پناہ کی تلاش اور خاندان کےساتھ دوبارہ ملاپ کے محفوظ اور قانونی طریقے فراہم کیے جائیں ۔
*یہ یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی بچے کو اپنے مائیگریشن اسٹیٹس کی وجہ سے حراست میں نہ رکھا جائے اور نہ ہی اسے حفاظتی اقدامات کے بغیر اس وقت تک اس کے وطن واپس نہ بھیجا جائے جب تک واپسی بچے کے بہترین مفادات میں نہ ہو۔
*قومی تعلیم، صحت ، بچے کے تحفظ اور سماجی تحفظ کے نظام کو مستحکم کیا جائے تاکہ اس میں بے گھر بچوں کو بلا امتیاز شامل کیا جا سکے ۔
* بچوں کے تحفظ کے نظاموں پر سرمایہ کاری کی جائے تاکہ نقل مکانی یا بے گھری پر مجبور ہونےوالے بچوں ، خاص طور پر ان بچوں کو جن کےساتھ کوئی سر پرست یا نگران نہ ہو ، استحصال اور تشدد سے بہتر طور پر تحفظ فراہم کیا جا سکے ۔
*بے گھر بچو ں کو سنا جائے اور انہیں بامعنی طریقے سے ان کوششوں میں شامل کیا جائے جن کا مقصد ایسے پائیدار اور سب کی شمولیت کا حل تلاش کرنا ہو جو انہیں اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مدد کر سکیں ۔
(یونیسیف)