رسائی کے لنکس

میں بڑا ہونا چاہتا ہوں، یو کرینی بچے کا خواب


لویو، یوکرین کے ایک بحالی کیمپ میں جنگ سے متاثرہ یو کرینی بچوں کو بہلایا جا رہا ہے۔ فوٹو اے پی۔ 3 مئی 2023
لویو، یوکرین کے ایک بحالی کیمپ میں جنگ سے متاثرہ یو کرینی بچوں کو بہلایا جا رہا ہے۔ فوٹو اے پی۔ 3 مئی 2023

یو کرین میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں خاندانوں کو بڑھتے ہوئے تشدد، صدمے، تباہی اور بے گھر ہونے کے مصائب کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات لاکھوں بچوں کا اس جنگ سے متاثر ہونا ہے جو نہ صرف موت کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ جو بچ گئے ہیں وہ زخمی ہیں اور شدید صدمے اور تشدد کے واقعات سے انتہائی خوف میں مبتلا ہیں۔

ان بچوں میں سے بیشتر کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ ان کے اسکول، ہسپتال اور دیگر ادارے تباہ ہو گئے ہیں اور بڑی تعداد میں بچوں کو اپنے والدین سے جدا ہونا پڑا ہے۔

انہیں میں یو کرین کے ڈونیٹسک کے علاقے میں نو اور دس سال کے اولحہ ہنکینا اور اس کا بھائی آندری بھی ہیں۔جس سانحے سے یہ گزرے، یہ انہیں کی زبانی سنیے:

"ایک شدید دھماکہ ہوا اور پھر ہر طرف دھواں ہی دھواں چھا گیا۔ دونوں نے دھوئیں کے پار آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔وہ ہدایات کے مطابق بھاگ کر شیلٹر میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے اپنے والد کو آواز دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔

دھواں چھٹا تو انہوں نے دیکھا ان کے والد پورچ پر بے سدھ پڑے تھے۔ روسی مارٹر نے انہیں موت کی نیند سلا دیا تھا۔

آندری کو اب بھی یاد ہے، " صبح کے سات بجے تھے جب والد کی موت ہوئی"۔"

اب وہ پولینڈ کی سرحد کے قریب مغربی شہر لویو میں رہتے ہیں۔

یہ دونوں بہن بھائی یوکرین کے ان بچوں میں شامل ہیں جن کی زندگیاں اس جنگ نے یکسر بدل کر رکھ دی ہیں۔

روس کے اس حملے کی وجہ سے انہیں مستقل بمباری کا سامنا ہے۔ لاکھوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے اور وہ یتیم خانوں میں رہنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ یونیسیف کا کہنا ہے کہ یو کرین کی جنگ میں بچوں پر جو تباہی اور مشکل آئی ہے وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے کبھی دیکھی نہیں گئی۔

جنگ کے نتیجے میں یو کرین کے بڑوں اور بچوں پر یکساں مشکلات آئی ہیں مگر روس کی جانب سے یو کرینی بچوں کو روسی بنا کر لانے کی کھلی کارروائیوں نے ایک نئے المیے کو جنم دیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنگ سے تباہ حال یو کرینی شہر ماریوپول کے ایک تہہ خانے میں اور روسی حمایت والے علیحدگی پسندوں کے ڈونباس کے علاقے کے یتیم خانوں میں ہزاروں بچے پائے گئے۔

ان میں وہ بچے بھی تھے جن کے والدین روسی بمباری میں مارے گئے اور وہ بھی جو اداروں یا ایسے خاندانوں کے ساتھ تھے جنہوں نے انہیں گود لیا اور جنہیں،“children of the state.” یا ریاست کے بچے کہا جاتا ہے۔

روس کا دعویٰ ہے کہ ان بچوں کے والدین نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ان کی دیکھ بھال کرنے والا ہے یا یہ کہ ان کے گھر والوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے چنانچہ روس کا انہیں لے جانا "ان کی فلاح اور دیکھ بھال کے لیے ہے۔"

لیکن ایسوسی ایٹڈ پریس کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ عہدیداروں نے یوکرینی بچوں کو ان کی مرضی معلوم کیے بغیر روس یا روسی قبضے والے علاقوں میں منتقل کردیا اور انہیں جھوٹ بتایا کہ ان کے والدین انہیں لینا نہیں چاہتے اور انہیں پراپیگنڈے کے لیے استعمال کیا، انہیں روسی شہریت دے دی اور روسی خاندانوں کے حوالے کر دیا۔

صدمے سے دوچار یوکرینی بچوں کے لیے 'ٹوائے تھیراپی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:38 0:00

اسی دوران یونیسیف کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق یو کرین کے 15 لاکھ بچوں کو ڈیپریشن، اینگزائٹی، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر PTSD اور دیگر ذہنی مسائل کا سامنا ہے۔

یو کرین کی نیشنل سوشل سروس کا کہنا ہے کہ تقریباً 1500 یو کرینی بچے والدین سے محروم ہو چکے ہیں۔

یوکرینی عہدیداروں کے مطابق ڈونیٹسک کے علاقے میں جو عرصے تک جنگ کا مرکز رہا، وہاں بچوں کا سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔ 462 بچے ہلاک یا زخمی ہوئے۔

اس میں ماریوپول شہر میں جو صوبے ڈونیٹسک کا ہی حصہ ہے، ہلاک یا زخمی ہونے والے بچے شامل نہیں ہیں۔

جنگ کے ہاتھوں خاندان سے جدا ہونے والے یہ ہنکن بہن بھائی ٹورسک نامی گاؤں میں جو اب اگلے محاذ سے صرف 35 کلو میٹر دور ہے، معمول کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی ماں کئی سال پہلے چل بسی تھیں اور اب والد بھی چلے گئے۔

نینا پولیاکووا لویو میں اولحہ ہنکینا سے بات کرتے ہوئے۔ فوٹو اے پی۔ 3 مئی 2023
نینا پولیاکووا لویو میں اولحہ ہنکینا سے بات کرتے ہوئے۔ فوٹو اے پی۔ 3 مئی 2023

پولیس اور رضا کاروں نے انہیں زکارپاتیا کے علاقے میں پہنچایا جہاں حکومت کی سوشل سروسز اور یو کرین کے خیراتی ادارے،" ایس او ایس چلڈرنز ویلیجز" نے ان کی دیکھ بھال شروع کی اور اب وہ نینا پولیاکووا نامی ایک مہربان خاتون کے ساتھ رہتے ہیں۔

بہت سی تنظیمیں بچوں کو اس صدمے اور خوف سے نکالنے کے لیے کام کر رہی ہیں ان میں ایک تنظیم " وائسز آف چلڈرن" بھی ہے جسے اب تک والدین کی طرف سے 700 کے قریب درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جو ذہنی دباو، شدید خوف اور صدمے کے بعد کے نفسیاتی مسائل PTSDکے شکار اپنے بچوں کے لیے ان کی مدد چاہتے ہیں۔

آندری ہنکن سے اگر پوچھیں کہ اسے گھر کی کیا بات یاد آتی ہے تو وہ دھماکوں اور بموں کے بجائے اپنے گاؤں کی خوبصورتی کو یاد کرتا ہے۔

جب اس سے اس کا سب سے بڑا خواب پوچھا گیا تو اس کا جواب تھا، " میں بڑا ہونا چاہتا ہوں"۔"

(اس خبر میں کچھ معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)

XS
SM
MD
LG