پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک بار پھر شدت اختیار کررہا ہے اور وفاقی و صوبائی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود صوبے میں ایسے واقعات کی شکایات بڑھ رہی ہیں۔
حال ہی میں بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک نوجوان کو جبری طور پر لاپتا کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ ٹوئٹر پر زیرِ گردش ویڈیو کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چند مسلح افراد فٹ بال کھیلنے والے نوجوان کا تعاقب کررہے ہیں۔
اس نوجوان کا نام یحییٰ زاہد بتایا جاتا ہےاور یہ ویڈیو ضلع خضدار کی تحصل زہری کے علاقے نور گامہ کی ہے جہاں فٹ بال میچ کی براہِ راست ویڈیو بنائی جارہی تھی جس کی وجہ سے یہ مناظر بھی ریکارڈ ہوگئے تھے۔
میدان میں موجود ایک کھلاڑی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یحیٰی زاہد ہمارے ساتھ فٹ کھیل رہے تھے کہ چھ سے ساتھ مسلح افراد اچانک میدان میں داخل ہوئے اور یحییٰ کے پیچھے بھاگنے لگے۔
ان کے بقول، مسلح افراد سادہ لباس میں ملبوس تھے اور اردو اور پنجابی زبان بول رہے تھے جس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق سیکیورٹی فورسز سے تھا۔
دوسری جانب بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے دو طلبہ کی مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کی حراست میں لیے جانے کےبعد لاپتا کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
تربت سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق تربت یونیورسٹی کے دو طالب علم ستار بلوچ اور اسلم بلوچ کو موٹر سائیکل پر یونیورسٹی جاتے ہوئے لاپتا کیا گیا ہے۔ لیکن بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی اور اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے اب تک اس واقعے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافہ
لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" نے دعویٰ کیا ہے کہ 2019 ، 2020 اور 2021 کے مقابلے میں رواں سال جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے بتایا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران بلوچستان سے لوگوں کو جبری طور پر لاپتا کرنے کے واقعات بڑھے ہیں۔
تنظیم کی جانب سے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اس عرصے کے دوران 50 سے زائد افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران چار لاپتا افراد بازیاب ہو کر اپنے گھر واپس آئے ہیں۔
یاد رہے کہ 30 ستمبر کو کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ ولی جیٹ سے ایک نوجوان حافظ محمد یاسر لاپتا ہوئے تھے جو تاحال بازیاب نہیں ہوئے ہیں۔
محمد یاسر کے علاوہ اس تنظیم کو بلوچستان کے علاقے خضدار اور کراچی سے دو بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کی شکایت موصول ہوئی تھیں جس کے مطابق 26 ستمبر کو سراج احمد ولد بہرام کو عوامی ہوٹل خضدار اور 28 ستمبر کو لیاری سے سراج ولد اصغر کو ان کے گھروں سے حراست میں لے کرلاپتا کیا گیا تھا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" کے اعداد و شمار میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بلوچستان سے اب تک لاپتا ہونے والے افراد کی کل تعداد سات ہزار کے قریب ہے۔جب کہ 2019 سے اب تک لگ بھگ 640 کاافراد بازیاب ہوچکے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں ہلاکتیں
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں سات" اینکاؤنٹرز " میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے کئی افراد وہ تھے جن کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھا۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ڈیرہ مراد جمالی میں سی ٹی ڈی نے جن چار افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا ان میں سے دو کی شناخت خاندان نے اکبر اور جیسف ولد نواب کے ناموں سے کی تھی۔دونوں بھائی جولائی میں ڈیرہ مراد جمالی سے لاپتا ہوئے تھے۔
اس سلسلے میں گزشتہ دنوں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے ایک ریلی بھی نکالی تھی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
ایچ آر سی بلوچستان کا اظہارِ تشویش
کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی) بلوچستان نے صوبے میں جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد کے بارے میں جاری کردہ اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایک ماہ کے دوران مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان میں38 افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال صرف ستمبر میں دو خواتین اور تین بچوں سمیت 24 افراد کو ہلاک کیا گیا ہے۔ تنظیم نے یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر میں بھی جمع کرائی ہے۔
حکومت کا کیا موقف ہے؟
دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع کا جبری گمشدگیوں کے حوالے سے مؤقف ہے کہ اکثر لاپتا افراد بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں یا ان میں سے بعض نے کالعدم عسکری تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس لیے ان کے لواحقین کے سیکیورٹی فورسز پرالزامات بے بنیاد ہیں۔
اس معاملے پر بلوچستان حکومت کا موقف رہا ہے کہ اس کی کوشش سے اب تک 400 سے زائد لاپتا افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، جب کہ وہ دیگر افراد کی بازیابی کے لیے بھی کوشش کر رہی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان میں لاپتا افراد کی تعداد میں حالیہ اضافے سے متعلق جب بلوچستان کے صوبائی مشیر داخلہ میر ضیاء اللّٰہ لانگو سے فون پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔