واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے سابقہ فوجیوں کے امور سے متعلق اپنی کابینہ کے رکن، ایرک شنسیکی کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا ہے، جِس سے قبل ہونے والی سرکاری چھان بین میں اِس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ ملک بھر میں سابقہ فوجیوں کے صحت عامہ کے نظام میں بیشمار نقائص موجود تھے۔
شنسیکی سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے بعد، مسٹر اوباما نے کہا کہ ایرک شنسیکی نے یہ استعفیٰ خود ہی پیش کیا، چونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جاری تفتیش کی راہ میں کسی طور پر کوئی ’رکاوٹ‘ پیش آئے۔
صدر نے کہا کہ وہ شنسیکی کے اس خیال سے متفق ہیں اور اُنھوں نے اِس نامور جنگی ہیرو کے استعفے کو ’افسوس کے ساتھ‘ قبول کیا۔
مسٹر اوباما نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بعد میں اُنھوں نے شنسیکی کے متبادل سے ملاقات کی؛ جو کہ شنسیکی کے سابق معاون، سلون گِبسن ہیں، اور یہ بات واضح کی کہ ’اصلاحات میں مزید انتظار نہیں کیا جانا چاہیئے‘۔
صدر اوباما پر شنسیکی کو معطل کرنے کے لیے سیاسی دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ ایک سابق فور اسٹار جنرل رہ چکے ہیں۔ یہ حقائق سامنے آتے رہے ہیں کہ طبی امداد کی فراہمی کے سلسلے میں سابقہ فوجیوں کو کئی ماہ کا انتظار کرنا پڑتا تھا، اور یہ کہ سرکاری ملازمین اس مسئلے کی پردہ پوشی کرتے رہے ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ویٹرنز کے معاملات پر فوری توجہ دی جائے اور اُن کے ساتھ بہتر رویہ اپنایا جائے۔
اس سے قبل، جمعے کے دِن سابقہ فوجیوں کے ایک گروپ سے باتیں کرتے ہوئے، شنسیکی نے طبی امداد کی فراہمی میں تاخیر کے معاملات پر معذرت کی۔ اس صورت حال کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ پہلے پہل یہ مسائل اکہ دکہ نوعیت کے معلوم ہوتے تھے، لیکن پتا یہ چلا کہ سابقہ فوجیوں کی صحت سے متعلق سہولتوں کی راہ میں ناقابل قبول منسائل حائل تھے۔
شنسیکی نے ایریزونا کی فئنکس شہر میں سابقہ فوجیوں کے صحت کے مرکز کی تمام قیادت کو معطل کرنے کا اعلان کیا، جہاں سے پہلی بار اس اسکینڈل کی خبریں منظر عام ہر آئی تھیں، اور کہا کہ وہ اعلیٰ اہل کاروں کی تنخواہ اور بونس منسوخ کر رہے ہیں۔
شنسیکی سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے بعد، مسٹر اوباما نے کہا کہ ایرک شنسیکی نے یہ استعفیٰ خود ہی پیش کیا، چونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جاری تفتیش کی راہ میں کسی طور پر کوئی ’رکاوٹ‘ پیش آئے۔
صدر نے کہا کہ وہ شنسیکی کے اس خیال سے متفق ہیں اور اُنھوں نے اِس نامور جنگی ہیرو کے استعفے کو ’افسوس کے ساتھ‘ قبول کیا۔
مسٹر اوباما نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بعد میں اُنھوں نے شنسیکی کے متبادل سے ملاقات کی؛ جو کہ شنسیکی کے سابق معاون، سلون گِبسن ہیں، اور یہ بات واضح کی کہ ’اصلاحات میں مزید انتظار نہیں کیا جانا چاہیئے‘۔
صدر اوباما پر شنسیکی کو معطل کرنے کے لیے سیاسی دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ ایک سابق فور اسٹار جنرل رہ چکے ہیں۔ یہ حقائق سامنے آتے رہے ہیں کہ طبی امداد کی فراہمی کے سلسلے میں سابقہ فوجیوں کو کئی ماہ کا انتظار کرنا پڑتا تھا، اور یہ کہ سرکاری ملازمین اس مسئلے کی پردہ پوشی کرتے رہے ہیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ویٹرنز کے معاملات پر فوری توجہ دی جائے اور اُن کے ساتھ بہتر رویہ اپنایا جائے۔
اس سے قبل، جمعے کے دِن سابقہ فوجیوں کے ایک گروپ سے باتیں کرتے ہوئے، شنسیکی نے طبی امداد کی فراہمی میں تاخیر کے معاملات پر معذرت کی۔ اس صورت حال کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ پہلے پہل یہ مسائل اکہ دکہ نوعیت کے معلوم ہوتے تھے، لیکن پتا یہ چلا کہ سابقہ فوجیوں کی صحت سے متعلق سہولتوں کی راہ میں ناقابل قبول منسائل حائل تھے۔
شنسیکی نے ایریزونا کی فئنکس شہر میں سابقہ فوجیوں کے صحت کے مرکز کی تمام قیادت کو معطل کرنے کا اعلان کیا، جہاں سے پہلی بار اس اسکینڈل کی خبریں منظر عام ہر آئی تھیں، اور کہا کہ وہ اعلیٰ اہل کاروں کی تنخواہ اور بونس منسوخ کر رہے ہیں۔