رسائی کے لنکس

ڈاکٹر منموہن سنگھ : مرے جواب سے بہتر ہے میری خاموشی


  • سابق وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی جائیں گی، حکام
  • کانگریس پارٹی نے اپنے تمام پروگرام سات روز کے لیے منسوخ کر دیے ہیں جن میں 28 دسمبر کو ہونے والا پارٹی کا یومِ تاسیس بھی شامل ہے۔
  • بھارت اپنے ممتاز رہنماؤں میں سے ایک کے انتقال پر سوگ منا رہا ہے، وزیرِ اعظم نریندر مودی
  • ہم ملک و قوم کے لیے منموہن سنگھ کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، صدر دروپدی مورمو

نئی دہلی _ بھارت کی حکومت نے سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے انتقال پر سات روزہ سرکاری سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران قومی پرچم سرنگوں رہے گا جب کہ جمعے کو ملک بھر میں عام تعطیل ہے۔

حکومت کے مطابق منموہن سنگھ کی آخری رسومات سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی جائیں گی۔ ان کا جسدِ خاکی ان کی سرکاری رہائش تین موتی لال نہرو مارگ پر درشن کے لیے رکھا گیا ہے۔

کانگریس کے جنرل سیکریٹری کے سی وینو گوپال نے خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ سے گفتگو میں بتایا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کی آخری رسومات ہفتے کو ادا کی جائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ کانگریس کے تمام پروگرام سات روز کے لیے منسوخ کر دیے ہیں جن میں 28 دسمبر کو ہونے والا پارٹی کا یومِ تاسیس بھی شامل ہے۔

کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بارے میں رحم دلی کے ساتھ فیصلہ کرے گی۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے منموہن سنگھ کے انتقال پر کہا ہے کہ بھارت اپنے ممتاز رہنماؤں میں سے ایک کے انتقال پر سوگ منا رہا ہے۔ ان کے بقول منموہن سنگھ ایک عام بیک گراؤنڈ سے اٹھ کر ایک باعزت ماہر معاشیات بنے۔

صدر دروپدی مورمو نے انہیں ایک نادر سیاست دان قرار دیا اور کہا کہ ہم ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

سینئر کانگریس رہنما اور قائد حزبِ اختلاف راہل گاندھی نے کہا کہ انہوں نے اپنا سرپرست اور رہنما کھو دیا۔ ان کی شرافت اور اقتصادیات کی گہری سمجھ نے پوری قوم کو متاثر کیا۔

وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ صرف اقتصادی اصلاحات کے خالق ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی میں اسٹرٹیجک درستی بھی کی تھی۔

وزیرِ داخلہ امت شاہ، کانگریس رہنما پرینکا گاندھی، بی جے پی صدر جے پی نڈا اور دیگر سیاست دانوں نے ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

نرم گفتار والے ڈاکٹر منموہن سنگھ بھارت میں اقتصادی اصلاحات کے خالق مانے جاتے ہیں۔ بھارت کے پہلے سکھ وزیرِ اعظم بننے سے قبل انہوں نے وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے 1991 میں اقتصادی اصلاحات سے بھارت کو عالمی معیشت میں تبدیل کیا۔

اُن کی اصلاحات کے نتیجے میں ہی بھارت کے بازار عالمی تجارت کے لیے کھل گئے اور انہی اصلاحات کے سبب آج بھارت دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی عالمی معیشت بن گیا ہے۔

منموہن سنگھ کو 1971 میں وزارتِ تجارت اور 1972 میں وزارتِ خزانہ کا مشیر بنایا گیا تھا۔ وہ 1991 میں پہلی بار راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

وزیرِ اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے انہیں 1991 میں وزیرِ خزانہ مقرر کیا۔ اس سے قبل وہ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین اور ریزرو بینک کے گورنر رہے تھے۔

سال 2004 کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) کی کامیابی کے بعد محاذ کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کیا تو یو پی اے نے انہیں وزیرِ اعظم نامزد کرنے کا اختیار دے دیا۔

مبصرین کے مطابق عام طور پر لوگوں کا خیال تھا کہ سونیا گاندھی سینئر رہنما پرنب مکھرجی کو وزیرِ اعظم نامزد کریں گی۔ لیکن اُس وقت لوگوں کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب انہوں نے انتہائی کم سخن ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزیرِ اعظم نامزد کر دیا۔

سال 2009 میں بھی یو پی اے کو کامیابی ملی اور منموہن سنگھ کو دوبارہ وزیرِ اعظم بنایا گیا۔ انہوں نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اقتصادی اصلاحات کو آگے بڑھایا اور ملک کی ترقی کے لیے متعدد پروگراموں کا آغاز کیا جن میں دیہی علاقوں کی ترقی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔

سال 2004 کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) کو کامیابی ملی تو محاذ کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے ڈاکٹر منموہن سنگھ کا انتخاب کیا تھا۔
سال 2004 کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) کو کامیابی ملی تو محاذ کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے ڈاکٹر منموہن سنگھ کا انتخاب کیا تھا۔

سال 2008 میں بحیثیت وزیرِ اعظم انہوں نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے امریکہ کے ساتھ جوہری تعاون معاہدے کا فیصلہ کیا۔ اُس وقت حکومت کی حلیف بائیں بازو کی جماعتوں نے اس کی سخت مخالفت کی اور حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی۔

لیکن ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے اس وقت کے صدر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کے تعاون سے جوہری معاہدہ کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کو سمجھایا۔

بائیں بازو کی جانب سے حمایت واپس لیے جانے کے بعد معاہدے کی مخالف سماجوادی پارٹی نے اپنا فیصلہ بدلا اور حکومت کی حمایت کر دی۔ منموہن سنگھ کو پارلیمان میں اپنی اکثریت ثابت کرنا پڑی۔ ووٹنگ کے دوران حکومت کے حق میں 275 اور مخالفت میں 256 ووٹ پڑے۔ اس طرح منموہن سنگھ کی حکومت بچ گئی۔

جوہری تعاون معاہدہ

ڈاکٹر منموہن سنگھ نے امریکہ کے ساتھ جوہری تعاون معاہدہ کیا۔ اس معاہدے سے بھارت نہ صرف ایک ذمہ دار جوہری طاقت بنا بلکہ اس نے امریکہ کو اس کی اجازت دی کہ وہ بھارت کے سویلین پروگراموں میں اپنی ٹیکنالوجی سے مدد کرے۔

بھارت اور امریکہ کے درمیان ہونے والا جوہری تعاون معاہدہ فریقین کے درمیان گہرے تعلقات اور دوستی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ کے میڈیا مشیر سنجے بارو نے اپنی کتاب ’دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ میں لکھا ہے کہ امریکہ کے ساتھ جوہری تعاون کے معاہدے پر انہوں نے جو سخت مؤقف اختیار کیا اس نے عوام کے دلوں سے اس تاثر کو مٹا دیا کہ وہ سونیا گاندھی کے تابعدار ہیں۔

پاکستان سے تعلقات

جولائی 2009 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ اور اُس وقت کے پاکستان کے وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں اس پر متفق ہوئے کہ دہشت گردی اصل چیلنج ہے۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی سے جولائی 2009 میں شرم الشیخ میں ملاقات۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی سے جولائی 2009 میں شرم الشیخ میں ملاقات۔

بات چیت کے دوران منموہن سنگھ نے ممبئی حملوں کا ذکر کیا وہیں یوسف رضا گیلانی نے بلوچستان اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کا ذکر کیا۔ تاہم دونوں رہنماؤں نے اس ملاقات کو بہت خوش گوار قرار دیا تھا۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ پاکستان کے ساتھ دوستانہ رشتوں کے قیام کے حق میں رہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بارہا اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ممبئی حملوں کی وجہ سے دوستانہ رشتے قائم نہیں ہو سکے۔

پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے 2019 میں کہا تھا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کرتارپور کوریڈور کے افتتاح کے موقع پر ایک کل جماعتی جتھے کے ساتھ درشن کے لیے جانے کے لیے تیار ہیں۔

اُس وقت کے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے منموہن سنگھ کو کرتارپور صاحب کے افتتاح میں شرکت کے لیے باضابطہ مدعو بھی کیا تھا۔ لیکن وہ ایک عام شہری کی حیثیت سے اہلیہ کے ہمراہ کرتاپور جانا چاہتے تھے۔

پنجاب کے وزیرِ خزانہ من پریت سنگھ بادل نے 2019 میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ منموہن سنگھ پاکستان میں اپنے آبائی علاقے جانا چاہتے ہیں لیکن اس جگہ سے وابستہ تکلیف دہ یادوں کی وجہ سے وہ نہیں گئے۔

ابتدائی زندگی

ڈاکٹر منموہن سنگھ 26 ستمبر 1932 کو غیر منقسم بھارت کے پنجاب کے موضع گاہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت یہ علاقہ پاکستان کے ضلع چکوال میں ہے۔ انہوں نے اپنے گاؤں کے ایک اسکول میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔

منموہن سنگھ کے والد کا نام گورمکھ سنگھ اور ماں کا نام امرت کور تھا۔ کم عمری میں ہی والدہ کے انتقال کے بعد ان کی دادی نے اُن کی پرورش کی۔

منموہن سنگھ کا خاندان 1947 میں بھارت آگیا تھا۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کیا۔ بعد ازاں انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

کانگریس رہنما راجیو شکلا نے اپنی کتاب ’تقسیم کی حقیقی کہانیاں‘ میں لکھا ہے کہ بھارت سے باہر ملازمت کے دوران وہ ایک بار اپنے ایک دوست کے ساتھ راولپنڈی گئے تھے۔

شکلا کے مطابق منموہن سنگھ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اُن کا دل پاکستان جانے کو بہت چاہتا ہے۔ جب ان سے پوچھا کہ وہ پاکستان میں کہاں جانا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنے آبائی گاؤں جانا چاہتے ہیں۔

جب راجیو شکلا نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ اپنا آبائی گھر دیکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ "میرا گھر تو بہت پہلے ختم ہو گیا۔ میں اس اسکول کو دیکھنا چاہتا ہوں جہاں میں نے درجہ چار تک کی تعلیم حاصل کی تھی۔" لیکن منموہن سنگھ کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔

منموہن سنگھ کی اہلیہ گورشرن تاریخ کی پروفیسر ہیں۔ ان کی تین بیٹیاں ہیں۔

اردو سے محبت

ڈاکٹر منموہن سنگھ اردو سمیت کئی زبانوں کے ماہر تھے۔ وہ اپنی تقریریں اردو رسم الخط میں لکھتے تھے۔ وہ علامہ اقبال کے مداح تھے اور ان کے بہت سے اشعار اپنی تقریروں میں استعمال کرتے تھے۔

اُن کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران پارلیمان میں ہونے والی ایک بحث کے موقع پر خطابت کی ماہر سینئر بی جے پی رہنما سشما سوراج نے اُن سے سوال کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا:

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں، تری رہبری کا سوال ہے

اس پر منموہن سنگھ نے کھڑے ہو کر کہا کہ وہ سشما سوراج کی طرح خطابت کے ماہر تو نہیں ہیں لیکن وہ ایک شعر سے ان کو جواب دینا چاہیں گے۔ انہوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا:

مانا کہ تری دید کے قابل نہیں ہوں میں

تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ

منموہن سنگھ کے بعض سخت فیصلوں کے باوجود انہیں ایک کم زور وزیرِ اعظم کی حیثیت سے دیکھا گیا۔ 2014 میں اپنی حکومت کی مدت کے خاتمے سے کچھ روز قبل انہوں نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ ایک کم زور وزیرِ اعظم تھے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ "میں ایمان داری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ تاریخ میڈیا کے مقابلے میں میرے ساتھ کہیں زیادہ رحم دلی کا مظاہرہ کرے گی۔ میں نے جو سب سے بہتر ہو سکتا تھا، وہ کیا۔"

موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی وزیرِ اعظم بننے سے قبل منموہن سنگھ کے دور میں ہونے والے متعدد مالی اسکینڈلز کے ذکر کے ساتھ انہیں ایک کم زور اور ناکام وزیرِ اعظم ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ میڈیا سے بات کرتے ہوئے اکثر و بیشتر اشعار کا استعمال کیا کرتے تھے۔ جب آخری دور میں ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں وہ خاموش رہے تو ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ خاموش کیوں ہیں؟

اس پر انہوں نے کہا تھا:

مرے 'جواب' سے بہتر ہے میری خاموشی

نہ جانے کتنے سوالوں کی آبرو رکھ لی

آج ڈاکٹر منموہن سنگھ خاموش ہو گئے ہیں۔ لیکن ہندوستانی سیاست و معیشت کے میدان میں ان کے کارنامے ہمیشہ بلند آواز سے بولتے رہیں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG