واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن ’عام نوعیت کا نہیں تھا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ڈرون حملوں کے ’مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں‘، جب کہ گوانتانامو کے بارے میں، صدر کا کہنا تھا کہ وہ کیوبا میں قائم فوج کے اس حراستی مرکز کو بند کرنے کے عہد پر قائم ہیں، جس سلسلے میں اضافی اقدمات کیے جائیں گے۔
جمعرات کے روز ’نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی‘ میں اپنے خطاب میں صدر اوباما نے بتایا کہ،’ایبٹ آباد کمپاؤنڈ سے اہم ترین دستاویزات ملی ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں افغانستان میں امریکی انفرا اٹرکچر سے مدد ملی، اور یہ کہ پاکستان کی حکومت نے اسامہ کے خلاف اس کارروائی میں تعاون کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ القاعدہ کی قیادت افغانستان اور پاکستان میں ’شکست کے قریب ہے‘، اور اب یہ دہشت گرد تنظیم ’امریکہ پر حملے کرنے کے بجائے اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ گوانتانامو دنیا بھر میں ایک علامت بن چکا ہے، جس کے لیے الزام دیا جاتا ہے کہ امریکہ قانون کی حکمرانی کے عہد کی پاسداری نہیں کرتا۔
صدر اوباما نے کانگریس سے مطالبہ کیا کہ گوانتانامو کے 166قیدیوں کی منتقلی پر عائد پابندیاں اٹھالی جائیں۔
اُنھوں نے محکمہ دفاع سے کہا کہ امریکہ ہی میں ایک متبادل مقام تلاش کیا جائے، جہاں ہر قیدی کے خلاف فوجی کمیشنز قائم ہوں جو یہ فیصلہ کریں کہ اُنھیں دیگر ملکوں کو کیسے منتقل کیا جائے اور کن قیدیوں کو فوج کے انصاف کے نظام کے تحت شہری عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں۔
اُنھوں نے کہا کہ القاعدہ کی مقامی شاخیں دنیا کے کئی ملکوں میں کام کر رہی ہیں، ’اور یہ کہ، آج ہمیں القاعدہ کی بہت سی مقامی شاخوں کا سامنا ہے‘۔
براک اوباما نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ، عراق، افغانستان، اسامہ کے خلاف ایبٹ آباد کی خصوصی کارروائی، القاعدہ کی طاقت کو تباہ کرنے، ڈرون حملے اور جانی نقصان کے موضوعات کے بارے میں تفصیلی ذکر کیا، اور آئندہ امریکی حکمت عملی کا اعلان کیا۔
ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی صدر براک نے کہا کہ اِن کا نشانہ دہشت گرد ہیں، اور یہ کہ شہریوں کے خلاف نہیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ نہ صرف القاعدہ بلکہ اُن کے حامی گروہوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ اُن کے الفاظ میں: ’ڈرون حملوں کی وجہ سے ہم اپنے دشمن پر مؤثر وار کرسکتے ہیں‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ ڈرون حملوں کی اخلاقی اور قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ڈرون کارروائیوں کے بارے میں امریکی کانگریس کو باخبر رکھا جاتا ہے۔
صدر نے واضح کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ امریکہ اور اسلام کی کوئی جنگ نہیں، اور یہ کہ اس تاثر کو مسلمانوں کی اکثریت مسترد کر چکی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ القاعدہ، طالبان اور اُن کے حامیوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، اور واضح کیا کہ امریکہ 2014ء میں افغانستان میں اپنا آپریشن مکمل کرکے باہر نکلنے کا خواہاں ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانیوں نے اپنی جانیں دیں۔
اُنھوں نے کہا کہ القاعدہ سے جنگ کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، اسامہ بن لادن مارا جاچکا ہے، جس کے باعث، امریکہ اب زیادہ محفوظ ہے۔
سعودی عرب کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ سعودی مدد سے امریکہ نے بحیرہ اوقیانوس میں مسافر طیارہ تباہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا، جس سے سینکڑوں افراد کی جانیں بچیں۔
صدر نے کہا کہ امریکہ کو آزادی کی اہمیت کا اندازہ ہے۔
اُنھوں نے 11ستمبر 2001ء کے امریکہ پر دہشت گرد حملوں کا حوالہ دیا، اور کہا کہ اب جنگ کا میدان تبدیل ہو گیا ہے، اور یہ کہ ہمیں افغانستان سے اہداف مکمل کرکے نکلنا ہے۔ ساتھ ہی اُنھوں نے بتایا کہ افغانستان میں القاعدہ کے اہم راہنماؤں پر حملے 2014ء کے آخر تک جاری رہیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ کی ’سیلف ڈیفنس پالیسی‘ حرف آخر نہیں۔
ڈرونز کے بارے میں اُنھوں نے مزید کہا کہ اِن کی وجہ سے امریکہ اپنے دشمن کو ہدف بنا سکتا ہے۔ اُنھوں نے ڈرون حملوں میں شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ٹیکنالوجی کارگر ہے، اور پوری کوشش کی جائے گی کہ احتیاط برتا جائے۔
اُنھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ڈرونز کے استعمال پر امریکہ کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اس ٹیکنالوجی کے باعث القاعدہ کے ساتھ جنگ کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، کیونکہ اِن سے اہداف کو درست نشانہ بنایا جاتا ہے اور پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ان سے شہری ہلاک نہ ہوں۔
عراق اور افغانستان کی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے، صدر نے کہا کہ اِن میں امریکہ کے سات ہزار فوجیوں نے جان دی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی وجہ سے صرف امریکہ کو نہیں بلکہ ثنا، کابل اور موغا دیشو میں بھی لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔
صدر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری ہے، اور یہ کہ کوئی قوم مسلسل جنگ نہیں لڑ سکتی۔
اُنھوں نے کہا کہ بن غازی اور بوسٹن کے حملے امریکہ کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتے ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ القاعدہ کی قیادت افغانستان اور افغانستان میں شکست کے قریب ہے، اور یہ کہ القاعدہ کو امریکہ پر حملے کے بجائے اپنی جان بچانے کی فکر لاحق ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ڈرون حملوں کے ’مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں‘، جب کہ گوانتانامو کے بارے میں، صدر کا کہنا تھا کہ وہ کیوبا میں قائم فوج کے اس حراستی مرکز کو بند کرنے کے عہد پر قائم ہیں، جس سلسلے میں اضافی اقدمات کیے جائیں گے۔
جمعرات کے روز ’نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی‘ میں اپنے خطاب میں صدر اوباما نے بتایا کہ،’ایبٹ آباد کمپاؤنڈ سے اہم ترین دستاویزات ملی ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں افغانستان میں امریکی انفرا اٹرکچر سے مدد ملی، اور یہ کہ پاکستان کی حکومت نے اسامہ کے خلاف اس کارروائی میں تعاون کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ القاعدہ کی قیادت افغانستان اور پاکستان میں ’شکست کے قریب ہے‘، اور اب یہ دہشت گرد تنظیم ’امریکہ پر حملے کرنے کے بجائے اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ گوانتانامو دنیا بھر میں ایک علامت بن چکا ہے، جس کے لیے الزام دیا جاتا ہے کہ امریکہ قانون کی حکمرانی کے عہد کی پاسداری نہیں کرتا۔
صدر اوباما نے کانگریس سے مطالبہ کیا کہ گوانتانامو کے 166قیدیوں کی منتقلی پر عائد پابندیاں اٹھالی جائیں۔
اُنھوں نے محکمہ دفاع سے کہا کہ امریکہ ہی میں ایک متبادل مقام تلاش کیا جائے، جہاں ہر قیدی کے خلاف فوجی کمیشنز قائم ہوں جو یہ فیصلہ کریں کہ اُنھیں دیگر ملکوں کو کیسے منتقل کیا جائے اور کن قیدیوں کو فوج کے انصاف کے نظام کے تحت شہری عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں۔
اُنھوں نے کہا کہ القاعدہ کی مقامی شاخیں دنیا کے کئی ملکوں میں کام کر رہی ہیں، ’اور یہ کہ، آج ہمیں القاعدہ کی بہت سی مقامی شاخوں کا سامنا ہے‘۔
براک اوباما نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ، عراق، افغانستان، اسامہ کے خلاف ایبٹ آباد کی خصوصی کارروائی، القاعدہ کی طاقت کو تباہ کرنے، ڈرون حملے اور جانی نقصان کے موضوعات کے بارے میں تفصیلی ذکر کیا، اور آئندہ امریکی حکمت عملی کا اعلان کیا۔
ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی صدر براک نے کہا کہ اِن کا نشانہ دہشت گرد ہیں، اور یہ کہ شہریوں کے خلاف نہیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ نہ صرف القاعدہ بلکہ اُن کے حامی گروہوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ اُن کے الفاظ میں: ’ڈرون حملوں کی وجہ سے ہم اپنے دشمن پر مؤثر وار کرسکتے ہیں‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ ڈرون حملوں کی اخلاقی اور قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ڈرون کارروائیوں کے بارے میں امریکی کانگریس کو باخبر رکھا جاتا ہے۔
صدر نے واضح کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ امریکہ اور اسلام کی کوئی جنگ نہیں، اور یہ کہ اس تاثر کو مسلمانوں کی اکثریت مسترد کر چکی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ القاعدہ، طالبان اور اُن کے حامیوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، اور واضح کیا کہ امریکہ 2014ء میں افغانستان میں اپنا آپریشن مکمل کرکے باہر نکلنے کا خواہاں ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانیوں نے اپنی جانیں دیں۔
اُنھوں نے کہا کہ القاعدہ سے جنگ کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، اسامہ بن لادن مارا جاچکا ہے، جس کے باعث، امریکہ اب زیادہ محفوظ ہے۔
سعودی عرب کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ سعودی مدد سے امریکہ نے بحیرہ اوقیانوس میں مسافر طیارہ تباہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا، جس سے سینکڑوں افراد کی جانیں بچیں۔
صدر نے کہا کہ امریکہ کو آزادی کی اہمیت کا اندازہ ہے۔
اُنھوں نے 11ستمبر 2001ء کے امریکہ پر دہشت گرد حملوں کا حوالہ دیا، اور کہا کہ اب جنگ کا میدان تبدیل ہو گیا ہے، اور یہ کہ ہمیں افغانستان سے اہداف مکمل کرکے نکلنا ہے۔ ساتھ ہی اُنھوں نے بتایا کہ افغانستان میں القاعدہ کے اہم راہنماؤں پر حملے 2014ء کے آخر تک جاری رہیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ کی ’سیلف ڈیفنس پالیسی‘ حرف آخر نہیں۔
ڈرونز کے بارے میں اُنھوں نے مزید کہا کہ اِن کی وجہ سے امریکہ اپنے دشمن کو ہدف بنا سکتا ہے۔ اُنھوں نے ڈرون حملوں میں شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ٹیکنالوجی کارگر ہے، اور پوری کوشش کی جائے گی کہ احتیاط برتا جائے۔
اُنھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ڈرونز کے استعمال پر امریکہ کو بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اس ٹیکنالوجی کے باعث القاعدہ کے ساتھ جنگ کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، کیونکہ اِن سے اہداف کو درست نشانہ بنایا جاتا ہے اور پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ان سے شہری ہلاک نہ ہوں۔
عراق اور افغانستان کی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے، صدر نے کہا کہ اِن میں امریکہ کے سات ہزار فوجیوں نے جان دی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی وجہ سے صرف امریکہ کو نہیں بلکہ ثنا، کابل اور موغا دیشو میں بھی لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔
صدر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری ہے، اور یہ کہ کوئی قوم مسلسل جنگ نہیں لڑ سکتی۔
اُنھوں نے کہا کہ بن غازی اور بوسٹن کے حملے امریکہ کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتے ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ القاعدہ کی قیادت افغانستان اور افغانستان میں شکست کے قریب ہے، اور یہ کہ القاعدہ کو امریکہ پر حملے کے بجائے اپنی جان بچانے کی فکر لاحق ہے۔