صدر اوباما نے گزشتہ سال چار جون کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مسلم دنیا کو مخاطب کر کے کچھ اہم اعلانات کئے تھے ۔ان اعلانات کا مقصد مسلمان دنیا کو یہ بتانا تھا کہ امریکہ تبدیل ہو رہا ہے ۔ لیکن اب جبکہ قاہرہ کے اس تاریخی خطاب کو ایک سال مکمل ہونے جا رہا ہے ،کیا امریکی خارجہ پالیسی میں واقعتا کچھ تبدیلیاں آئی ہیں ۔کیا صدر اوباما کے خطاب کے ایک سال بعد عالمی مسائل کے حل کی کوئی عملی صورت نظر آرہی ہے یا نہیں ؟ اور واشنگٹن کے ماہرین امریکہ اور مسلم دنیا کے تعلقات کو کیسے دیکھ رہے ہیں ؟
صدر اوباما نے اپنے خطاب کے دوران کہاتھا کہ امن کی بات کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد بنا کر امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر نے قاہرہ میں مسلمان دنیا کے ساتھ مل کر چلنے کی یقین دہانی کرائی تھی دنیا میں امن کے لئے امریکہ کے قائدانہ کردار کی بات کی تھی مگر مسلمان ملکوں کی حکومتوں اور عوام سے قیام امن کے اس عمل میں تعاون کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔
اب جبکہ اوباما انتطامیہ کو اقتدار سنبھالے ڈیڑھ سال اور قاہرہ کی اس تاریخی تقریر کو ایک سال گزر چکا ہے ،واشنگٹن کے حلقوں میں اوباما انتطامیہ کی خارجہ پالیسی اور مسلمان دنیا سے تعلقات ایک بار پھر زیر بحث ہے۔
اوباما انتطامیہ کے اقتدار میں آنے کے نو ماہ بعد مشرق وسطی کے امور کے لئے معاون وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے والی تمارا کوف مین وٹس کہتی ہیں کہ صدر اوباما نے قاہرہ میں مسلم دنیا سے وسیع تر تعلقات کی بات کی تھی جس کا مقصدوہ فریم ورک مہیا کرنا تھا جس کی روشنی میں امریکہ اور مسلم دنیاکےآئندہ تعلقات کا نیا رخ متعین ہونا تھا ۔
وہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات ہم امکانات کو فورا جانچ لیتے ہیں اور بعض اوقات چیزیں وقت کے ساتھ ممکن ہوتی ہیں ۔ کچھ مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں صدر اوباما نے قاہرہ میں ایمانداری سے سچ بولا تھا ، اور انہیں حل کرنا واقعی مشکل ہے جیسے مشرق وسطی کا امن عمل ۔ اور کچھ ایسے مسئلے ہیں جن کے حل کی طرف کچھ پیش رفت ہو رہی ہے۔ ہم نے صدر اوباما کی تقریر کے بعد کئی ملکوں کی حکومتوں اور عوا م سے رابطے پیدا کئے جو صدر کی قاہرہ کی تقریر کی روشنی میں ہم سے پارٹنر شپ مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور ہم بھی ایسا ہی چاہتے ہیں ۔
بعض امریکی تجزیہ کار وں کا خیال ہے کہ تقریر کا مقصد صرف افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرنا اور عراق اور افغان جنگ کے بعد مسلم دنیا میں پید اہونےو الے امریکہ مخالف جذبات کو ٹھنڈا کرکے اپنی بات سننے پر آمادہ کرنا تھا ۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ایک اسکالر سٹیفن گرینڈ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں صدر اوباما نے کچھ نئے پل بنائے ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ میں جارج بش نہیں ہوں ۔ امریکہ کوئی صلیبی جنگ نہیں لڑ رہا ۔ ہم مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے امریکہی شہنشاہیت قائم نہیں کرنا چاہتے ۔ہم مشرق وسطیٰ کو ایک ترقی یافتہ خطہ اور وہاں وہی اقدار دیکھنا چاہتے ہیں جو ہمارے درمیان مشترک ہیں ۔ تاکہ ان ملکوں کے لوگوں کی شہری اور انسان ہونے کے طور پر مکمل توانائی استعمال ہو ۔
پراجیکٹ آف مڈل ایسٹ ڈیموکریسی کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر اینڈریو البرٹ سن کہتے ہیں کہ اوباما نے جب اقتدار سنبھالا تووہ یہ سمجھ چکے تھے کہ امریکہ اور اس کی خارجہ پالیسی کا دنیا میں منفی تاثر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ جسے انہیں اپنی خارجہ پالیسی کی سب سے پہلی ترجیح بنانا ہوگا ۔ خیال یہ تھا کہ ایک مسلمان ملک میں ایسی تقریر کی جائے ، جو امریکہ اور مسلم دنیا کے مشترکہ مسائل ،مشترکہ اقدار اور اس سوچ کا اظہار ہو جس کے تحت ہم انکے عوام کو بتائیں کہ آپ کا بھی ایک کردار ہے ، ہم آپ کی بات سن رہے ہیں ، اور ہمیں ان مشترکہ مسائل کے حل میں آپ ُ کی مدد چاہئے ۔ وہ پہل کی کوشش ، وہ نیا لہجہ ، وہ بہت سوچی سمجھی اور دانائی پر مبنی اپروچ ایک کامیاب حکمت عملی تھی ۔ اور اس نے لوگوں پر ایک مثبت تاثر چھوڑا ۔
لیکن اوباما انتظامیہ اور ان کے مشاورت کار ان آوازوں پر بھی دھیان دے رہے ہیں جو پچھلے ایک سال میں تنازعہ فلسطین کی اپنے حل سے بدستور دوری اور مشرق وسطی کے ملکوں میں قیام جمہوریت کی کوششوں کی کسی ٹھوس حمایت کی عدم موجودگی اور صدر اوباما کی تقریر کے کسی ٹھوس پالیسی کی شکل میں ظاہر نہ ہونے پر مایوسی ظاہر کر رہے ہیں ۔
اینڈریو البرٹ سن کہتے ہیں کہ قاہرہ کی تقریر میں 14 اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا جوتقریر کے بعد ہونے تھے ۔ مگر وہ کوئی بڑے اقدامات نہیں تھے ۔ ان میں سے کچھ پر عمل نہیں ہوا ۔ ایک اعلان او آئی سی کے ساتھ مل پولیو کے خاتمے کی کوشش کا تھا جو ایک اچھا آئیڈیا تھا مگر اس وقت تو او آئی سی کے لئے ہمارا کوئی سفیر تک نہیں تھا ۔ ہم نے ایک سفیر مقرر کر لیا جو ایک پہلا اچھا قدم ہے مگر ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے ۔ میرا نہیں خیال کہ مشرق وسطی کے لئے پالیسی میں تبدیلی اس معیار کی تھی کہ امریکہ کا حقیقیتا تاثر بہتر ہوتا ۔
سٹیفن گرینڈ کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں اوباما نے انسانی اور معاشی ترقی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان پارٹنر شپ کا آئیڈیا بھی پیش کیا تھا ۔۔مگر اب چیلنج یہ ہے کہ ہم کیسے امریکہ اور مسلمان اکثریتی ملکوں کے درمیان ایسی توانائی سے بھرپور پارٹنر شپ قائم کریں ، جو ان معاملات پر توجہ رکھے جن کی ہمیں فکر ہے ۔ اور دونوں طرف شہریوں کی بھلائی کے مقصد کو آگے بڑھائے ۔ مثلا تعلیم ،سائنسی تحقیق ، ماحول کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرے ۔
بعض ماہرین کو اعتراض ہے کہ اوباما انتطامیہ وسیع تر انگیجمنٹ کی بات تو کرتی ہے مگر اب تک امریکی سفارتی مندوبین کی ملاقاتیں بند کمروں میں مشرقی وسطی ممالک کے سرکاری نمائندوں سے ہی ہو سکی ہیں اورمصر اور اردن جیسے ملکوں کی سول سوسائٹی کی حوصلہ افزائی کی کوئی قابل ذکر کوشش دیکھنے میں نہیں آئی مگر امریکی نائب وزیر خارجہ برائے مشرقی امور تمارا کوف مین اس سے اتفاق نہیں کرتیں ۔
وہ کہتی ہیں کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرتی ۔ عرب دنیا کے ہر ملک میں لوگ آواز بلند کر رہے ہیں کہ انہیں کیسی تبدیلی چاہئے اوروہ اپنے آپ کو اس تبدیلی کے لئے منظم کر رہے ہیں ۔ مجھے مشرق وسطی کے مستقبل اور شہری آزادیوں کے لئے جو امید نطر آتی ہے وہ اس کی سول سوسائٹی اور نوجوان آبادی ہے ۔ عرب دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ جنہیں جلدی ہے ، جو دنیا سے رابطے میں ہیں اور جانتے ہیں کہ دوسرے ملک اپنی معیشتوں اور معاشروں کو ترقی اور جمہوریت دینے کے لئے کیا کر رہے ہیں اور انہیں اپنے لئے بھی یہی چاہئے ۔
مگر بعض ماہرین کہتے ہیں کہ مسلم دنیا کا اعتماد جیتنے کے لئے صرف خلوص نیت ہی کافی نہیں ،اس کے لئے اوباما انتطامیہ کو تیز رفتاری کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگاتاہم بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سٹیفن گرینڈ مطمئن ہیں کہ اگر صدر اوباما کے قاہرہ میں خطاب کے بعد مسلم دنیا کے عوام اپنی زندگیوں پر اس کے اثرات اور کسی تبدیلی کا انتظار بھی کر رہے ہیں تو یہ اس گفتگو سے بہت مختلف ہے جو بش دور حکومت میں ہو رہی تھی ۔
امریکی خارجہ پالیسی کے ردو بدل پر نظر رکھنے والے ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم دنیا میں تبدیلی آرہی ہےمگر اس تبدیلی کو امریکہ کے وعدوں اور خیر سگالی کے پیغامات سے بڑھ کے کچھ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔اور جس کے لئے امریکی انتظامیہ کو ان تمام تحفظات کو بھی اہمیت دینی پڑے گی جو پچھلے اک سال کے دوران امریکی پالیسیوں میں کسی ٹھوس تبدیلی کی غیر موجودگی میں دوبارہ ٕمضبوط ہو رہے ہیں ۔