امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ لڑائی میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں تک آسان رسائی کی اجازت دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔
اپنے ہفتہ وار خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ اکثر و بیشتر یہ اسلحہ وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں ہمارے بیٹے اور بیٹیاں ہر روز جاتے ہیں، یعنی اُن کے اسکول، عبادت گاہوں، مووی تھیٹر اور نائٹ کلبس۔۔۔‘‘
صدر نے کہا کہ اُنھوں نے ملک بھر کے والدین کے بارے میں بہت سوچا ہے، جنھیں اپنے بچوں کو وضاحت پیش کرنی پڑتی ہے کہ اورلینڈو میں کیا ہوا، جہاں ایک اکیلے سر پھرے مسلح شخص نے ایک گے نائٹ کلب میں گولیاں چلائیں، جس میں 49 افراد ہلاک ہوئے۔
اوباما نے کہا کہ ’’دہشت گردی اور اسلحے کے زور پر پُرتشدد حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لیے، ہم نے ہر بار کچھ لمحات کی خاموشی اختیار کی۔ لیکن، ہماری جانب سے کوئی اقدام نہ کیا جانا ناقابلِ معافی ہے‘‘۔
اوباما نے کہا کہ اگر ہم اپنے بچوں کو محفوظ، شفقت بھرا ماحول دینا چاہتے ہیں، تو اِس کے لیے ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنی ہوگی۔ ہمارے بچے چاہیں گے کہ ہماری کمیونٹیز کے لیے اسلحے کے مضر اثرات پر ہم ایک دوسرے سے بات کریں۔ اور اس ضمن میں حالات کو جوں کا توں چھوڑنا کسی کے حق میں نہیں۔ وہ چاہیں گے کہ ہم اُس وقت بھی کھل کر بات کریں جب ہماری بات سے اتفاق کرنے والے چیخ کر بولنے کی کوشش کر رہے ہوں‘‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ ایسا ہے کہ والدین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہر بات اُن کے بس میں نہیں۔ تاہم، والدین کی حیثیت سے، جو بات ہم کرسکتے ہیں اُسے ضرور انجام دینا ہوگا۔ بغیر اِس کے، ہماری ذمہ داری پوری نہیں ہوتی۔ ہمیں بچوں کو غیر مشروط پیار اور حمایت دینی ہے؛ اُنھیں درست اور غلط کا فرق بتانا ہے؛ اُنھیں محبت نہ کہ نفرت کی تلقین کرنی ہے؛ اور یہ کہ وہ ہمارے اختلافات کو سمجھیں، اُن سے خوف نہ کھائیں؛ لیکن اُن کی پرورش درست تحائف دے کر کی جانی چاہیئے‘‘۔