یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس، واشنگٹن کے جنوبی ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکہ کے حالیہ کشیدہ تعلقات کے تناظر میں کسی نئی کارروائی کے بارے میں صدر براک اوباما کے تازہ بیان کا پاکستان میں ’منفی ردِ عمل ہوگا‘، کیونکہ، اُن کے بقول، پاکستان میں خودمختاری کا معاملہ بار بار اٹھایا جاتا ہے ڈروں حملوں کےحوالے سے اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی کارروائی کے حوالے سے بھی۔
یہ بات اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔ معید یوسف سے امریکی صدر کی طرف سے اتوار کو بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو پراُن کی رائے معلوم کی گئی تھی۔
طالبان سے بات چیت سے متعلق امکانات اور ممکنہ نتائج کے بارے میں ایک سوال پر معید یوسف نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر کافی عرصے سے اِس بات کے قائل ہیں کہ مفاہمت کا عمل شروع ہونا چاہیئے، کیونکہ، اُن کے الفاظ میں ’یہ معاملہ بات چیت سے ہی حل ہوگا۔‘
اُن کے خیال میں طالبان، القاعدہ سے تعلقات منقطع کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے، اگر اُن کی شرائط مانی جائیں۔ ساتھ ہی اُنھوں نے کہا کہ ’بات چیت میں جو اصل مسئلہ کھڑا ہوگا وہ امریکہ کی وہاں پہ موجودگی پر ہوگا۔۔۔ بہت سے نکات ایسے ہیں جن پررضامند ہونا شاید دونوں کے لیے اتنا آسان نہ ہو۔‘
لیکن معید یوسف کا کہنا تھا طالبان کا القاعدہ سے لاتعلقی کا معاملہ پاکستان کےحق میں ہے، اوریہی بات طالبان کے حق میں بھی ہے۔
جب اُن سےبھارت پاکستان تعلقات کے بارے میں صدر اوباما کے بیان پر تبصرے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک میں تعلقات معمول پر آنے اورفروغ پانے سے معاشی طور پر سودمند نتائج برآمد ہوں گے۔
اِس حوالے سے معید یوسف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو مستحکم تعلقات کی طرف بڑھنا ہوگا۔
معید یوسف کے الفاظ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ’اگر دہشت گردی، کشمیر اور افغانستان پر سنجیدگی سے بات چیت ہو تو اِن تینوں نکات پر آگے بڑھنے کی صورت نظر آتی ہے۔ اگر ڈائلاگ آگے بڑھا تو اِس کے امکانات موجود ہیں۔‘
صدر اوباما کے حالیہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے، دفاعی تجزیہ کار بریگڈیئر (ر) اسد منیر نے کہا کہ 9/11کے فوراً بعد آئی ایس آئی اور سی آئی اے کا بہت اچھا تعاون رہا اور اُنھوں نے مشترکہ آپریشن کیے جس میں 400سے زائد القاعدہ کےعناصر اور اُنھیں سہولیات فراہم کرنے والے لوگ پکڑے گئے۔ اُن کے خیال میں ’ہائی وہلیو ٹارگیٹ‘ کو مشترکہ کوشش کے بغیر کامیابی سے پکڑنا مشکل ہوگا اور اُن کے بقول، وقت سے قبل بیان بازی سے احتراز کرنے کی ضرورت ہے۔
طالبان کے ساتھ مفاہمت کے بارے میں سوال پر بریگیڈیئر (ر) اسد منیر نے کہا کہ مختلف سطح پر یہ مذاکرات 2008ء سے جاری ہیں۔ اِس حوالے سے اُنھوں نے 2010ء کے امن جرگے کا ذکر کیا۔ اُن کے الفاظ میں، ’اُن سے بات ضرور کرنی چاہیئے لیکن اُن کو حکومت نہیں دینی چاہیئے۔ ‘
اُنھوں نے کہا کہ’ صرف اُن لوگوں سے بات کرنی چاہیئے جو افغانستان کے نئے آئین کو مانتے ہیں جس میں عورتوں کے حقوق دیے گئے ہیں اور اُس کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن، اُن کے علاوہ جو لوگ سخت گیر ہیں، اُن سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
آڈیو رپورٹ سنیئے: