امریکہ کی خصوصی افواج کی کارروائی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر انٹیلی جنس کی دو روز تک جاری رہنے والی بند دروازوں کے پیچھے بریفنگ کے بعد ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن سینیٹرز نےپاکستان پر زور دیا کہ وہ جلد جوابات فراہم کرے۔
ایری زونا سے ریپبلیکن جان مک کین سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی سے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، ’ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کا وہاں کس حد تک علم تھا۔‘
مِزوری سے ڈیموکریٹک سینیٹر کلیئر میک کاسکل نے مزید کھلے انداز میں یہ بیان دیا: ’(اِس سلسلے میں) کئی سوالات ہیں جِن کا پوچھنا اور جواب حاصل کرنا ضروری ہے۔‘
اور نیو ہمپشا ئر سے ریپبلیکن سینیٹر کیلی ایوہے کے مطابق پاکستان کے جوابات سے امریکہ پاکستان تعلقات کی شکل واضح ہوگی۔
اُن کے الفاظ میں: ’یہ دیکھتے ہوئے کہ بن لادن کمپاؤنڈ کس جگہ واقع تھا اور علاقے میں موجود مکانات کے اوسط سائز سے آٹھ گنا بڑا تھا تو ہم یہ دو باتیں ضرور کہہ سکتے ہیں کہ کیا پاکستانی عہدے دار نااہل تھے یا پھر وہ اِس کمپاؤنڈ کےبارے میں جانتے تھے لیکن ہمیں معلومات فراہم نہیں کر رہے تھے؟ یہ سوال پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کے لیے بے حد اہم ہے۔ ہمیں حقائق دریافت کرنے کی اور اپنے تعلقات کے دوبارہ تعین کی ضرورت ہے اور پاکستان کے ساتھ یہ کڑی نوعیت کی گفتگو آگے بڑھنی چاہیئے۔‘
پاکستان کے وزیرِٕ اعظم نے بن لادن کے إِس طرح کھلم کھلا ایک عام جگہ پرچھپنے کی صلاحیت کو صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ عالمی سطح پر انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک تن تنہا دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اُنھوں نے اپنے ملک کو اِس سلسلے میں مسئلے کانہیں بلکہ حل کا حصہ قرار دیا۔
پاکستان کے لیے امریکہ کی فوجی اور غیر فوجی امداد گذشتہ عشرے کے دوران تقریباً 20ارب ڈالر رہی۔ میری لینڈ سے ڈیموکریٹک سینیٹر باربرا مکولسکی نے کہا کہ اُن کا لمبے عرصے سے یہی سوال رہا ہے آیا یہ رقم درست طور پر استعمال ہو رہی ہے۔’مجھے کچھ عرصے سے پاکستان کے بارے میں تشویش رہی ہے۔ اِس سے قطع نظر کہ وہ اپنی فوجی اکیڈمی کے قریب اسامہ بن لادن کی رہائش کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ غیر ملکی امداد کو اپنے عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کی بجائے بدعنوانی کے ذریعے استعمال کرنا تکلیف دہ بات ہے۔‘
سینیٹر ایوہے نے کہا کہ وہ مستقبل میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کے بارے میں حکمتِ عملی طے کرنے کے لیے منتظر ہیں۔ اُن کے الفاظ میں: ’میرا خیال ہے کہ بن لادن کے بارے میں حقائق پہلے سامنے آنا ضروری ہیں اِس سے پہلے کہ ہم امداد کے مسئلے پر غور کریں۔‘
سینیٹر میک کاسکل نے اسامہ بن لادن پر پاکستان سے جواب طلبی کے ساتھ ساتھ زور دیا کہ امریکہ پاکستان تعلقات میں زیادہ بڑے اور اہم امور قابلِ غور ہیں۔
’ہمیں یہاں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں افغانستان میں اپنے فوجیوں کو رسد کی فراہمی کے لیے پاکستان سے گزرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے پاس جوہری صلاحیت ہے۔ وہ دنیا کے ایک خطرناک حصے میں واقع ہے اور افغانستان میں اِس وقت ہمارے ہزاروں فوجی خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ اِس لیے میرا خیال ہے کہ ہمیں بے حد سوچ بچار اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔‘
سینیٹر جان مک کین کے بیان میں بھی یہی بازگشت سنائی دی۔ ُن کے الفاظ میں ’کئی امور ایسے ہیں جہاں ہمیں پاکستانیوں سے نمایاں اور اہم تعاون حاصل رہا ہے۔ وہ جوہری طاقت کا حامل ملک ہے جو پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اور مؤقف کے لیے ایک پیچیدہ صورتِ حال پیدا کرتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ بات اہم ہے کہ ہم یہ معلوم کریں کہ آیا پاکستان کو اِس بات کا علم تھا کہ اسامہ بن لادن وہاں رہائش پذیر رہا۔
ایوانِ نمائندگان میں بھی قانون ساز بن لادن کے معاملے پر بات کر رہے ہیں۔ ایوانِ نمائندگان میں ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کے چیرمین ری پبلیکن پیٹر کنگ کہتے ہیں یہ یقین کرنا بہت دشوار ہے کہ پاکستانی حکام کوبن لادن کے ٹھکانے کے بارے میں علم نہ تھا۔
کنگ نے مزید کہا کہ امریکہ پاکستان تعلقات اہم ہیں لیکن اتوار سے یہ تعلقات تبدیل ہوئے ہیں جب سے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا اعلان کیا گیا ہے۔