رسائی کے لنکس

ایران جوہری سمجھوتے کی حمایت کی جائے: اوباما


کانگریس کو اپنے مراسلے میں، صدر نے کہا ہے کہ’اگر ایران جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی جانب قدم بڑھاتا ہے، تو پھر امریکہ کے پاس تمام آپشن کھلے ہیں۔۔ جن میں فوجی آپشن شامل ہے، جو اس سمجھوتے کی مدت کے دوران اور اُس کے بعد بھی دستیاب رہے گا‘

اِس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ ایران کی جانب سے سمجھوتے کی شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں، امریکہ اب بھی ایران کے خلاف فوجی کارروائی یا دوبارہ پابندیاں لگا سکتا ہے، امریکی صدر براک اوباما نے ایک بار پھر کانگریس پر زور دیا ہے کہ ایران کے ساتھ کئے گئے سمجھوتے کی حمایت کی جائے۔

اُنھوں نے یہ بات 19 اگست کو ایوانِ نمائندگان کے رُکن اور نیویارک سے منتخب ڈیموکریٹ، جیرولڈ نیڈلر کو تحریر کردہ ایک مراسلے میں کہی ہے۔
صدر کے الفاظ میں، ’اگر ایران جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی جانب قدم بڑھاتا ہے، تو پھر امریکہ کے پاس تمام آپشن کھلے ہیں۔۔ جن میں فوجی آپشن شامل ہے، جو اس سمجھوتے کی مدت کے دوران اور اُس کے بعد بھی دستیاب رہے گا‘۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے لیے مختص دفاعی میزائل فنڈ کی رقوم میں اضافہ کرنے پر تیار ہے، جو ایران اور عالمی طاقتوں کی جانب سے طے ہونے والے جوہری سمجھوتے کی سخت مخالفت کر رہا ہے۔
نیڈلر نے جمعے کے روز اس جوہری سمجھوتے کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایک امریکی یہودی کی حیثیت سےجو ڈیموکریٹ اور اسرائیل کا مضبوط حامی ہے۔۔۔۔ (اس بات کا قائل ہے کہ) یہ سمجھوتا ہمیں ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے‘۔

اوباما کا یہ خط اُسی ہفتے روانہ کیا گیا تھا جب نیوجرسی سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹر، رابرٹ مینڈیز نے کہا تھا کہ اگلے ماہ جب جوہری سمجھوتے پر کانگریس میں ووٹنگ ہوگی تو وہ اُس کی مخالفت کریں گے۔ ریپبلیکن نمائندوں نے پہلے ہی اِس قانون سازی کو روکنے کا عہد کر رکھا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر ایران نیوکلیئر بم حاصل کرتا ہے تو اُس پر میرا نام کندہ نہیں ہوگا۔۔۔ میں ایسے سمجھوتے کو منظور نہ کرنے کے لیے ووٹ دوں گا، اور اگر ضرورت پڑی، تو میں (صدارتی) ویٹو کے خلاف ووٹ دوں گا‘۔

مینڈیز نے اوباما انتظامیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ کلیدی شقوں کو دوبارہ زیر غور لانے کے لیے پھر سے مذاکرات کریں، جس معاملے پر اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ناممکن امر ہے۔

گذشتہ ماہ، نیویارک کے سینیٹر چَک شومر، جو ڈیموکریٹ پارٹی کے تیسری اعلیٰ سطحی رُکن ہیں، کہا تھا کہ وہ جوہری سمجھوتے کے خلاف ووٹ دیں گے اور دوسرے سینیٹروں کو بھی قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔

اوباما نے اس بات کا وعدہ کر رکھا ہے کہ اگر ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ اگلے ماہ نیوکلیئر سمجھوتے پر ووٹنگ کے دوران، تحریک کی مخالفت کریں گے، تو وہ اُسے ویٹو کردیں گے۔ ابھی یہ واضح نہیں آیا کانگریس کے پاس اتنے ووٹ ہیں کہ وہ ویٹو پر حاوی پاسکے۔

ایران اور پانچ کلیدی عالمی طاقتوں۔۔برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس۔۔ کے درمیان طے ہونے والے سمجھوتے کے تحت، ایران کو یورینئیم کی افزودگی کی سطح گھٹانی ہوگی، تاکہ وہ بم نہ بنا سکے، اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اُسے اپنی فوجی تنصیبات بین الاقوامی معائنہ کاروں کے لیے کھولنی ہوں گی۔ اِس کے عوض، چھ عالمی طاقتیں تعزیرات میں نرمی کریں گی، جن کے نتیجے میں ایران کی معیشت تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی ہے۔

رواں ہفتے، ایسو سی ایٹڈ پریس نے خبر دی تھی کہ جوہری توانائی پر اقوام متحدہ کے نگران ادارے اور ایران کے مابین ایک ذیلی سمجھوتے کے مسودے میں اس بات کی اجازت درج ہے کہ ایران کے اپنے معائنہ کار پارچین کی جوہری تنصیب کی ازخود تفتیش کرسکتے ہیں۔
تاہم، ’آئی اے اِی اے‘ کے سربراہ، یکییا امانو نے ایس خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔

بقول اُن کے، ’اس قسم کے بیانات اُس طریقہٴکار کی نفی کرتے ہیں جس طرح ہم توثیق کا یہ اہم کام کر رہے ہیں‘۔

تاہم، اُنھوں نے کہا کہ وہ ’اِس صیغہٴراز والےسمجھوتے سے متعلق مزید کوئی انکشاف نہیں کرسکتے‘۔ امانو نے اِس بات پر زور دیا کہ اِس سمجھوتے کا حتمی متن ’تکنیکی طور پر درست اور طویل مدت سے جاری ہماری روایات کے عین مطابق ہے۔‘

امریکی محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ ’آئی اےاِی اے‘ نے ’کسی طور پر بھی‘ ایران کو یہ ذمہ داری نہیں دی کہ وہ اپنی جوہری تنصیبات کا خود معائنہ کرے۔

XS
SM
MD
LG