رسائی کے لنکس

صدر اوباما کو درپیش مشکلات


صدر کو اپنی فتح سے لطف اندوز ہونے کے لیے بالکل وقت نہیں ملا۔ وہ جلد ہی امریکی کانگریس میں ریپبلیکنز کے ساتھ پیچیدہ مذاکرات میں الجھ گئے تا کہ فسکل کلف کے خطرات سے بچ سکیں۔

ٹائم میگزین نے امریکی سیاست میں ایک ہنگامہ خیز سال کے بعد صدر براک اوباما کو 2012ء کی ممتاز ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ صدر براک اوباما نے ریپبلیکن مٹ رومنی کے خلاف کانٹے کی انتخابی مہم کے بعد دوبارہ صدارت کا انتخاب جیت لیا۔ لیکن صدارت کی دوسری مدت میں صدر کو درپیش مسائل کی کمی نہیں۔

ایک تھکا دینے والی انتخابی مہم کے بعد صدر براک اوباما نے ریپبلیکن مٹ رومنی پر فتح حاصل کر لی۔ اگلے چار برسوں کے لیے ان کا لب و لہجہ عزم و حوصلے سے بھر پور تھا۔

’’آپ کی داستانوں اور آپ کی جدو جہد کے جلو میں، میں وائٹ ہاؤس میں واپس لوٹ رہا ہوں۔ مجھے وہاں جو کام کرنا ہے اور ہمارے سامنے جو مستقبل ہے ، اس کے بارے میں زیادہ پُر عزم ہوں۔‘‘

لیکن صدر کو اپنی فتح سے لطف اندوز ہونے کے لیے بالکل وقت نہیں ملا۔ وہ جلد ہی امریکی کانگریس میں ریپبلیکنز کے ساتھ پیچیدہ مذاکرات میں الجھ گئے تا کہ فسکل کلف کے خطرات سے بچ سکیں۔

فسکل کلف مجموعہ ہے ٹیکسوں میں زبردست اضافوں اور بجٹ میں کمی کا جن پر جنوری سے عمل شروع ہو جائے گا سوائے اس کے کہ کانگریس اور صدر بجٹ میں خسارے میں کمی کے کسی منصوبے پر متفق ہو جائیں۔

اور پھر دسمبر میں صدر اوباما کو نیو ٹاؤن، کنیٹی کٹ میں اسکول میں گولیاں چلنے کے المناک واقعے کے بعد ایک بار پھر قوم کے زخموں پر مرہم رکھنا پڑا ۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم مزید اس قسم کے واقعات برداشت نہیں کر سکتے۔ ان المیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ اور انہیں ختم کرنے کے لیے، ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔‘‘

لیکن جب وہ اپنی صدارت کی دوسری مدت کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ مسٹر اوباما کو اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملا ہے۔

صدر ریگن کے وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف کین ڈبرسٹین کہتے ہیں کہ ’’لوگوں نے صدر اوباما کو دوسری بار موقع دیا ہے، شاید اس لیے کہ انھوں نے 2008ء میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کریں، یعنی یہ کہ واشنگٹن میں ہم جس طرح مل جل کر کام کرتے ہیں یا کام نہیں کرتے، اس میں تبدیلی لائیں۔‘‘

صدر کے خلاف چار سال تک انتخابی مہم چلانے کے بعد ریپبلیکنز کو بھی موقع ملا ہے کہ وہ نئے سرے سے ابتدا کریں۔

بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ کار تھامس مان کہتے ہیں کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ عملی طور سے ریپبلیکنز کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ان کی صدارت کے دوسری مدت کے دوران صدر اوباما کی مخالفت ہی کرتے رہیں ۔ اگر ان کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہ ہمارے مسائل کے حل میں صرف رکاوٹیں ہی کھڑی کرتے رہتےہیں، تو وہ اپنی موت کے پروانے پر خود ہی دستخط کر رہے ہوں گے۔‘‘

ڈیموکریٹس نے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے انتخابات میں معمولی سی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے ریپبلیکنز میں مصالحت کی تحریک پیدا ہو سکتی ہے۔

یونیورسٹی آف کیلے فورنیا کے مورخ میتھیو ڈالیک کہتے ہیں کہ ’’میرا خیال ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ ٹی پارٹی کے کچھ ارکان کسی حد تک مصالحت پر تیار ہیں۔ بعض کٹر قدامت پسندوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ اگر وہ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے تندو تیز بیانات میں اور اپنے موقف میں کچھ نرمی لانا ہوگی۔‘‘

کین ڈبرسٹین کہتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں ٹیکسوں اور حکومت کے اخراجات کے بارے میں بعض مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر کو کانگریس میں اپنے اتحادیوں سے کچھ رعایتیں طلب کرنی ہوں گی۔

’’قیادت کا ایک بڑا حصہ یہ ہے کہ کبھی کبھی اپنے مضبوط ترین اتحادیوں سے نا کہہ دیا جائے اور اپنے کٹر ترین دشمنوں سے ہاں کہہ دی جائے۔ مختلف خیالات کے لوگوں کو ایک ساتھ جمع کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘

صدر اوباما سرکاری طور پر اپنے دوسرے عہدِ صدارت کا حلف 20 جنوری کو اٹھائیں گے اور اس کے اگلے روز ان کی صدارت کی افتتاحی تقریب ہو گی۔
XS
SM
MD
LG