واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کے دِن وائٹ ہاؤس میں کیپ وردے، ملاوی، سنیگال اور سیرا لیون کے راہنماؤں کو دعوت پر مدعو کیا، جِس دوران اُنھوں نے اِن ملکوں کی طرف سے حاصل کی گئی معاشی پیش رفت اور جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی تعریف کی۔
مسٹر اوباما نے توجہ دلائی کہ اِن افریقی ملکوں کے مہمانوں کو اپنے ممالک میں مشکل نوعیت کے سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے، جِن میں سیرا لیون میں خانہ جنگی، ملاوی میں آنے والا حالیہ آئینی بحران اور سنیگال میں سیاسی بے چینی شامل ہیں۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ اِن چیلنجز سے نبردآزما ہونے کا نتیجہ استحکام اور معاشی ترقی کےحصول کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔
اِس ملاقات میں جِن لیڈروں نے شرکت کی اُن میں سیرا لیون کے صدر ارنیسٹ بائی کوروما؛ سنیگالی صدر میکی سال، کیپ وردے کے وزیر اعظم ہوز ماریا پریرا نیویس اور ملاوی کے صدر جوئس بندا شامل تھے۔
مسٹر اوباما نے2011ء میں اِسی نوعیت کی ایک ملاقات میں بینن، گِنی، آئیوری کوسٹ اور نائیجر کے راہنماؤں کو مدعو کیا تھا، جِس کے بعد 2012ء میں امریکہ نے سب سہارا افریقہ کے ممالک کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایک منصوبہ جاری کیا تھا۔
مسٹر اوباما نے توجہ دلائی کہ اِن افریقی ملکوں کے مہمانوں کو اپنے ممالک میں مشکل نوعیت کے سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے، جِن میں سیرا لیون میں خانہ جنگی، ملاوی میں آنے والا حالیہ آئینی بحران اور سنیگال میں سیاسی بے چینی شامل ہیں۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ اِن چیلنجز سے نبردآزما ہونے کا نتیجہ استحکام اور معاشی ترقی کےحصول کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔
اِس ملاقات میں جِن لیڈروں نے شرکت کی اُن میں سیرا لیون کے صدر ارنیسٹ بائی کوروما؛ سنیگالی صدر میکی سال، کیپ وردے کے وزیر اعظم ہوز ماریا پریرا نیویس اور ملاوی کے صدر جوئس بندا شامل تھے۔
مسٹر اوباما نے2011ء میں اِسی نوعیت کی ایک ملاقات میں بینن، گِنی، آئیوری کوسٹ اور نائیجر کے راہنماؤں کو مدعو کیا تھا، جِس کے بعد 2012ء میں امریکہ نے سب سہارا افریقہ کے ممالک کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایک منصوبہ جاری کیا تھا۔