امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اس بات کا "واضح ثبوت نہیں ملا" کہ اورلینڈو کے نائب کلب میں فائرنگ کرنے والے حملہ آور نے یہ کارروائی بیرون ملک کسی دہشت گرد گروہ کی ہدایت پر کی۔
پیر کو وائٹ ہاوس میں صدر اوباما نے صحافیوں کو بتایا کہ "بظاہر یہ لگتا ہے کہ حملہ آور انٹرنیٹ پر انتہا پسندوں کی طرف سے پھیلائی گئی معلومات سے متاثر ہوا۔"
اتوار کو فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے ایک مشہور نائٹ کلب میں حملہ آور نے فائرنگ کر کے 49 افراد کو ہلاک اور 53 کو زخمی کر دیا تھا اور پھر پولیس کے ساتھ جھڑپ میں خود بھی مارا گیا۔
حملہ آور کی شناخت افغان نژاد امریکی خاندان سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ عمر صدیق متین کے طور پر کی گئی۔ اسے ملکی تاریخ کا بدترین قتل عام قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ حملہ آور "مقامی انتہا پسندی کی ایک شکل ہے جس کے بارے میں ہم ایک عرصے سے تشویش ظاہر کرتے آ رہے ہیں۔"
ان کے بقول حملہ آور کی طرف سے اورلینڈو میں 911 ہنگامی امداد کے نمبر پر کالز کے دوران عین موقع پر داعش سے وفاداری کا اعلان کیا۔
صدر نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے حکام تاحال اپنی تحقیقات کے "ابتدائی مرحلے میں ہیں" اور اب بھی "ایسا بہت کچھ باقی ہے جو ہمیں جاننا ہے۔"
وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف بی آئی" کے سربراہ جیمز کومی یہ بتا چکے ہیں کہ ان کا ادارہ حملہ آور کی انٹرنیٹ مصروفیات کا جائزہ لے رہا ہے۔
پیر کو دیر گئے وائٹ ہاوس کے ترجمان جون ارنسٹ نے بتایا کہ صدر اوباما جمعرات کو اورلینڈو کا دورہ کریں گے جہاں وہ متاثرہ خاندانوں سے تعزیت اور لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کریں گے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ حملہ آور نے حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ قانونی طریقے سے خریدا۔ "اس طرح کا اسلحہ خریدنا اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر ہمیں کام کرنا ہے۔"
صدر اوباما اسلحہ کی خریداری پر کنٹرول کے حامی ہیں لیکن اس معاملے پر انھیں مزاحمت اور مخالفت کا سامنا رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں ملنے والی معلومات پر بھی کام کر رہے ہیں کہ آیا حملہ آور کو اس کارروائی میں کسی کی مدد بھی حاصل تھی یا نہیں۔