امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کو ہٹانے کے لیے نیٹو کی قیادت میں کی گئی کارروائی کے بعد ملک میں خلفشار کا ماحول پیدا ہوا، اور اُن کے اقتدار کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اِس کے لیے پہلے سے تیاری نہیں کی گئی تھی۔
اوباما نے یہ بات فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہی ہے، جس دوران اُنھوں نے وائٹ ہائوس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا ذکر کیا۔
اُنھوں نے 'فوکس نیوز' کے کِرس والیس کو بتایا کہ اُن کی سب سے بڑی غلطی ''شاید آنے والے دِن کا پہلے سے منصوبہ تیار نہ کرنا تھا''۔ تاہم، اُنھوں نے مزید کہا کہ شہریوں کو قذافی کی حکومت کی جانب سےڈھائے جانے والے مظالم سے بچانے کے لیے کی جانے والی مداخلت ''درست فیصلہ تھا''۔
لیبیا کے مطلق العنان کی ہلاکت کے بعد، کئی ماہ کے بعد امریکہ اور یورپی ملکوں نے فضائی کارروائیاں کیں۔ مشرق وسطیٰ کے اس ملک کو خلفشار کا شکار چھوڑ دیا گیا جو اب تک جاری ہے۔
لیبیا کے آمر کی ہلاکت کے کئی ماہ بعد دو متحارب ملیشیائوں نے پارلیمان اور حکومت کی تشکیل کی تگ و دو کی؛ اور یوں لیبیا یورپ کی جانب جانے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کا مرکز بنا رہا، جس کے نتیجے میں براعظم کے تارکین وطن کے شدید بحران نے جنم لیا۔
اقوام متحدہ کی پشت پناہی والی اتحادی حکومت کی دارالحکومت طرابلس میں آمد ہوچکی ہے۔ لیکن، متحارب پارلیمان نے اب تک باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کی ثالثی کی حمایت نہیں کی۔
اوباما نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آج لیبیا میں غیر تسلی بخش صورت حال ہے؛ اور 'ایٹلانٹک مگزین' کو ایک اور انٹرویو میں بتایا کہ لیبیا میں کی کئی کارروائی کے بعد برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون 'کئی دیگر معاملات میں الجھ گئے''۔
اوباما نے قذافی کو ہٹائے جانے کے بعد لیبیا کی صورت حال سے بہتر طور پر نبردآزما ہونے میں ناکامی کے معاملے پر سابق فرانسیسی صدر نکولس سارکوزی پر نکتہ چینی۔
اوباما نے کہا کہ سات برس سے زائد مدت تک عہدے پر فائز رہنے کے دوران اُن کی سب سے بڑی کامیابی سنہ 2008 اور 2009ء کے دوران ملک کو درپیش آنے والی شدید کساد بازاری سے مقابلہ کرنا تھا، جو بحران سنہ 1930 کی دہائی کے بعد ملک کو درپیش بدترین کساد بازاری تھی۔
آٹھ سال پہلے کے معاشی حالات کی وجہ سے لاکھوں کارکنان بے روزگار ہوئے، جن کے گھر کڑکی میں چلے گئے، چونکہ اُن کے بینکوں کو ادائگی کے لیے 'مارگیج' دینے کے پیسے نہیں بچے تھے۔ تاہم، آج امریکہ کی معیشت پھر سے دنیا کی سب سے طاقتور معیشت کا درجہ دوبارہ حاصل کر چکی ہے، جب کہ بے روزگاری کی شرح اپنی کم سطح پر آچکی ہے۔