پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے اعلیٰ عہدیداروں کا سہ فریقی اجلاس منگل کو اسلام آباد میں ہوا جس میں امریکہ کے خصوصی ایلچی مارک گراسمین ، افغانستان کے نائب وزیر خارجہ جاوید لدن اور پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کی۔
دارالحکومت اسلام آباد میں اعلیٰ پاکستانی اور افغان عہدیداروں سے مذاکرات کے بعد امریکہ کے خصوصی ایلچی مارک گراسمین نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسامہ بن لادن دہشت گرد کارروائیوں اور خطے میں جمہوری حکومتوں کے خلاف مصروف عمل تھا ا س لیے تینوں ملک اُس کی ہلاکت کو ایک بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ افغانستان ، پاکستان اور امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کر رکھا ہے اور تینوں ملک افغانستان میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔
امریکی صدر کے نمائندے نے کہا کہ ذرائع ابلا غ میں کی جانے والی قیاس آرائیوں اور سازشی مفروضوں سے قطع نظر یہ امر واقع ہے کہ اسامہ بن لادن مر چکا ہے اور ہم سب کے لیے اس میں بہتر ی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دہشت گر دی کے خلاف تعاون ماضی میں بھی ہوتا رہا جو اب بھی جاری ہے اور اُمید ہے کہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا کیوں کہ دونوں ملک دہشت گردی کا شکا ر ہیں۔
اس موقع پر پاکستا ن کے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ اسامہ بن لادن کو کس نے اور کس طرح ہلا ک کیا بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کو کریدنے کے بجائے تمام توجہ ایک نئی شروعا ت اور مستقبل پر مرکوز کی جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی ہے اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں اتحادی ملکوں کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے میں وہ اب بھی تعاون کر رہا ہے جومستقبل میں بھی جاری رہے گا۔
پاکستانی خارجہ سیکرٹری نے کہا کہ امریکہ ، افغانستان اور اُن کا ملک پر اعتماد ہے دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو کامیابی سے منتقی انجام تک پہنچایاجائے گاکیوں کہ اس سوا کوئی دوسر ا چار ہ نہیں ۔ سلمان بشیر نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان کی اولین ترجیح ہے اور کسی کو دہشت گرد حملے کرنے کے لیے پاکستانی سرزمین ہرگز استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔
ایک روز قبل ایبٹ آباد میں فوجی کی مرکزی تربیت گاہ کاکول اکیڈمی کے قریب کارروائی کر کے امریکی اسپیشل فورسز نے اسامہ بن لادن کو تین دیگر ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا تھا۔ اور اس خبر کا انکشاف کر تے ہوئے امریکہ صدر براک اوباما نے ٹیلی ویژن پر خطاب میں کہا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ کی پناہ گاہ تک پہنچنے میں پاکستانی مدد شامل تھی ۔ لیکن تاحال یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس کارروائی میں براہ راست پاکستان کا کوئی کردار تھا یا نہیں ۔
امریکہ اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے کی گئی کارروائی مشترکہ نہیں تھی البتہ امریکہ کے ساتھ ایک دہائی پر محیط پاکستان کا انٹیلی جنس کے شعبے میں تعاون مہذب دنیا کو درپیش اس خطرے کے خاتمہ کا باعث بنا۔