پاکستان اور بھارت کے تعلقات گزشتہ کئی دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ تاہم تنازع کشمیر کے معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہوتا رہا ہے۔
دونوں ممالک کے سیاسی تجزیہ کار کرتار پور راہداری کھولے جانے کو دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کا ایک موقع قرار دے رہے ہیں۔ تاہم ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری فوری طور پر کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔
پاکستان نے گزشتہ سال یہ راہداری کھولنے کا اعلان کیا تھا اور محض ایک سال کی ریکارڈ مدت میں بھاری سرمایے سے اس راہداری کو مکمل کیا گیا ہے۔
نو نومبر کو کرتار پور راہداری کا افتتاح ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ہفتے کو کرتار پور راہداری کا باضابطہ افتتاح کریں گے۔ جس کے لیے دونوں ممالک کی اہم شخصیات کے علاوہ بھارت سمیت دنیا بھر سے آئے سکھ یاتری شریک ہوں گے۔
نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر سوران سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ موجود ہے۔ لیکن کرتار پور راہداری منصوبہ امن کی نوید بن سکتا ہے۔
سوران سنگھ کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثقافتی اور عوامی تعلقات کو بہتر کرنے کے ہمیشہ امکانات موجود رہتے ہیں۔ اس تناظر میں کرتار پور راہداری پاکستان اور بھارت کے درمیان ثقافتی رابطوں کے فروغ کا باعث بن سکتی ہے۔
سوران سنگھ کے بقول پاکستانی اور بھارتی پنجاب تعلقات میں بہتری کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ پنجاب کی ثقافت اور رہن سہن مشترک ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اور صحافی زاہد حسین سوران سنگھ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ کرتار پور راہداری کی وجہ سے خیر سگالی کا پیغام ملے گا۔ لیکن اس کا براہ راست اثر پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر کرنے میں شاید نہ پڑ سکے۔
زاہد حسین کے بقول پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی پیچیدہ ہیں اور نئی دہلی کی طرف سے کشمیر سے متعلق حالیہ اقدامات نے ان دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثر ڈالا ہے۔ لہذٰا یہ راہداری کھلنے کے باوجود ان تعلقات میں بہتری کی امید کم ہے۔
زاہد حسین کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے کرتار پور راہداری کھولے جانے کے باوجود ابھی تک بھارت نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان سے کوئی بات چیت کرے گا۔
سوران سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ ہے اور بات چیت بند ہے۔ ان کے بقول ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے اور جب بھی کوئی حادثہ یا کوئی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے تو دونوں ممالک کے درمیان بات چیت بند ہو جاتی ہے۔
تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ کرتار پور راہداری تعمیر کرنے کی تجویز ایک عرصے سے موجود تھی۔ ان کے بقول یہ تجویز جس وقت سامنے آئی اس وقت بھی دونوں ممالک کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ البتہ اب تعلقات زیادہ خراب ہیں۔ زاہد حسین کہتے ہیں کہ بعض بھارتی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان اس راہداری منصوبے سے بھارتی پنجاب کی سکھ برادری کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتا ہے۔
ان کے بقول ماضی میں بھی بھارت میں سکھوں کی علیحدگی پسند تحریک “خالصتان” موجود رہی ہے اور اس وقت بھی اس کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ بھارت کے لیے کرتار پور راہداری منصوبے سے انکار کرنا مشکل تھا۔ کیوں کہ یہ ایک ایسا مذہبی معاملہ ہے۔ جس کی وجہ سے بھارت بھی اس پر اتفاق کرنے پر مجبور ہو گیا۔
زاہد حسین سمجھتے ہیں کہ اگر بھارت جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم نہ کرتا تو شاید کرتار پور راہداری کھلنے کا دونوں ممالک کے تعلقات پر بہتر اثر ہوتا۔