بھارت نے کرتارپور آنے والے سکھ اور دیگر یاتریوں کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے کی پاکستان کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں پاکستانی حکام کے بیانات واضح نہیں ہیں۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے پاسپورٹ کی شرط ختم کیے جانے سے متعلق ملنے والی اطلاعات واضح نہیں ہیں۔
رویش کمار کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتارپور راہداری سے متعلق طے پانے والے سمجھوتے میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی فریق اسے یک طرفہ طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔
رویش کمار کے بقول، یہ شرط اب بھی برقرار ہے کہ 9 نومبر یا اس کے بعد جو بھی بھارتی شہری کرتارپور جائے گا، اس کے پاس پاسپورٹ ہونا ضروری ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 24 اکتوبر کو کرتارپور راہداری کے سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے جس کے مطابق سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن ان کے پاس پاسپورٹ ہونا لازمی ہے۔
تاہم، پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے کرتارپور آنے والے سکھوں کے لیے دو شرائط ختم کردی ہیں اور اب انہیں نہ ہی پاسپورٹ درکار ہوگا اور نہ انہیں پاکستان میں داخلے سے 10 روز قبل رجسٹریشن کرانا ہوگی۔
'پاکستان مزید راہداریاں کھولنے کے لیے تیار'
دریں اثنا، پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ کرتارپور راہداری کھولنے کے لیے پہل پاکستان نے کی تھی اور اسلام آباد پاک بھارت سرحد پر مزید راہداریاں کھولنے کے لیے بھی تیار ہے، لیکن بھارت اس پر آمادہ نہیں۔
دفترِ خارجہ میں جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کھولنے کے منصوبے پر پہل کی تھی جس کے بعد بھارت نے اسے قبول کیا۔
ترجمان دفترِ خارجہ سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان نے کارگل اور اسکردو کو ملانے والی راہداری کھولنے کی تجویز بھی بھارت کو دی ہے؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ تمام متنازع معاملات اور مزید راہداریاں کھولنے کے لیے مذاکرات پر تیار ہیں۔ لیکن بھارت اس پر تیار نہیں ہے۔
محمد فیصل کے بقول، ہم تو ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مسائل حل ہوں، جمّوں و کشمیر کا مسئلہ حل ہو، پانی کے مسائل، سرکریک اور سیاچن کے مسائل حل ہوں۔ لیکن بات کریں گے تو ہی یہ معاملات حل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کرتارپور راہداری بھی مشکل سے کھلی ہے۔ ایسی مزید راہداریاں کھلنی چاہئیں اور تعلقات میں بہتری آنی چاہیے۔ لیکن مذاکرات کے بغیر اس سلسلے میں مزید پیش رفت نہیں ہو سکتی۔
ترجمان دفتر خارجہ کے بقول، بھارت نے تو لائن آف کنٹرول کے تین مقامات پر ہونے والی تجارت بھی بند کر دی ہے۔
یاد رہے کہ بھارت نے رواں سال اگست میں جمّوں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد لائن آف کنٹرول سے ہونے والی تجارت اور بس سروس معطل کر دی تھی۔
کرتارپور راہداری سے آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے کے معاملے پر ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان گرونانک کے 550ویں جنم دن کے موقع پر یاتریوں کو پاسپورٹ سے استثنیٰ دینے اور 10 روز قبل فہرستیں جمع کرانے کی شرط کو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ 9 اور 12 نومبر کو بھارت سے آنے والے یاتریوں کے لیے 20 ڈالر کی فیس بھی ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔ لیکن بھارت کی طرف سے اس پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے بدھ کو اپنے بیان میں کرتارپور راہداری کھولنے پر سیکورٹی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کرتارپور راہداری کھولنے کے پیچھے پاکستان کی فوج اور اس کے خفیہ ادارے ہیں۔
پاکستان کے ترجمان دفترِ خارجہ نے اس بیان پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے ترجمان ہونے کے ناطے صرف مثبت معاملات پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول، پاکستان کی پالیسی میں کوئی منفی عنصر شامل نہیں ہے اور ہم مثبت ہی رہیں گے۔