پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں آزاد امیدوار سب سے زیادہ تعداد میں کامیاب ہو کر سامنے آئے ہیں۔ سیاسی اور قانونی حلقوں میں ان آزاد امیدواروں کے مستقبل کے بارے میں تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں۔
اگرچہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے زیادہ تر امیدوار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ ہیں تاہم ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ ان آزاد امیداروں کی بڑی تعداد پی ٹی آئی کے بجائے کسی اور جماعت میں بھی شامل ہو سکتی ہے۔
اس امکان کو اس وجہ سے بھی تقویت مل رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے سیاسی جماعتوں اور جیتنے والے آزاد اراکین کو مل کر حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔
یاد رہے کہ آزاد اراکین کو کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد تین روز میں کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونا پڑتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ آزاد اراکین نہ صرف حکومت بنانے بلکہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
تاہم سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کی حمایت سے کامیاب ہونے والے آزاد اراکین اسمبلی میں کسی ایک پلیٹ فارم پر ہی رہیں۔
'آزاد اراکین الگ گروپ بھی بنا سکتے ہیں'
پارلیمانی امور کے ماہر تجزیہ نگار ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن کی سیاسی جماعتوں کی فہرست میں نہ ہونے کے باعث پارلیمانی جماعت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ لہذا پی ٹی آئی کی حمایت سے منتخب آزاد امیدوار آزاد حیثیت میں الگ گروپ بنا سکتے ہیں یا کسی اور جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آزاد حیثیت میں رہنے کی صورت میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل نہیں ہوں گی۔ البتہ اگر کسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو ان اضافی نشستوں کے اہل ہو جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل یا مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) میں اپنے اراکین کو شامل کریں اور اس صورت میں مخصوص نشستوں سے محروم نہ رہیں۔
ان کے بقول اگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو وہ جماعت مخصوص نشستوں کی اضافی فہرست الیکشن کمیشن کو دے سکتی ہے اور بظاہر اس عمل میں کوئی مشکل نہیں ہے۔
آزاد اراکین کے پاس کیا راستے ہیں؟
قانونی ماہر احمر بلال محبوب کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کے بعد جماعت کو الیکشن کمیشن کی فہرست میں شامل نہیں کروا پاتی تو اس صورت میں آزاد اراکین کے پاس مستقبل کے لیے دو راستے ہوں گے۔
ان کے بقول ایک راستہ یہ ہے کہ وہ آزاد حیثیت میں ہی رہیں لیکن اس صورت میں انہیں مخصوص نشستیں حاصل نہیں ہوں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ نوٹی فکیشن کے اجرا کے بعد تین دن کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس صورت میں آزاد اراکین کی شمولیت سے مذکورہ جماعت کے اراکین کی تعداد بڑھ جائے گی اور وہ اسی تناسب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں حاصل کر سکے گی۔
'حلف اُٹھانے کے تین روز کے اندر آزاد اراکین کو فیصلہ کرنا ہو گا'
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے مدثر رضوی کہتے ہیں کہ وہ امیدوار جو آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے ہیں وہ کسی بھی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں جس کے اراکین اپنے پارٹی کے نشان پر منتخب ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مدثر رضوی نے کہا کہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے اراکین اگر کسی اور جماعت میں شامل ہونا چاہیں تو انہیں یہ فیصلہ حلف اٹھانے کے تین دن کے اندر کرنا ہو گا بصورت دیگر وہ اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ چوں کہ پی ٹی آئی نے انتخاب میں حصہ نہیں لیا ہے اس لیے آزاد اراکین کے پاس پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا آپشن موجود نہیں ہے لیکن وہ کسی اور جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ آزاد اراکین اپنا آزاد بلاک بھی قومی اسمبلی میں قائم کر سکتے ہیں۔ لیکن مخصوص نشستیں اسی جماعت کو ملیں گی جس نے اپنے انتخابی نشان پر انتخاب جیتا ہے۔
جوڑ توڑ کی سیاست میں آزاد اُمیدواروں کی اہمیت
قومی اسمبلی کی کل 336 میں سے 266 جنرل نشستیں ہیں جب کہ بقیہ مخصوص نشستیں ہیں۔ پنجاب سے نشستوں کی تعداد 141 ہے۔ سندھ کی 61 نشستیں ہیں، خیبر پختونخوا کی 45، بلوچستان 16 جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تین نشستیں ہیں۔
ماہرین کے مطابق الیکشن کے سامنے آنے والے نتائج کے مطابق کسی ایک جماعت کے لیے سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانا ممکن نظر نہیں آتا۔ حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست شروع ہو گی جس میں ان آزاد امیدواروں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ اس وقت دو قسم کے آزاد اراکین ہیں ایک وہ جن کا انتخابی نشان چھن گیا تھا اور دوسرے وہ جو خود سے آزاد حیثیت میں کھڑے ہوئے اور کامیاب ہو گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ کسی جماعت میں شامل ہونے کے بعد ان اراکین کو اہم فیصلوں میں پارٹی کے فیصلے پر عمل کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کی حمایت سے کامیاب ہونے والے تمام امیدوار پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی کے مطابق ہی چلیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی عمران خان کے فیصلوں کے بر خلاف جاتے رہے ہیں جب 2013 میں انہوں نے اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا تو بعض اراکین نے فیصلہ قبول نہیں کیا اور اسی طرح عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر پی ٹی آئی کے 20 ارکان نے جماعت کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
مدثر رضوی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار جس جماعت میں شامل ہوں گے خواتین اور اقلیتی نشستیں اسی جماعت کو ملیں گی جس نے اانتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن میں اپنی فہرست جمع کرا دی ہو گی۔
مدثر رضوی کہتے ہیں کہ آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے امیدوار کسی بھی منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی کو وزیرِ اعظم منتخب کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب میں بھی حصہ لے کر ان عہدوں کے لیے منتخب ہو سکتے ہیں۔
اُن کے بقول اس کے علاوہ اگر کسی آزاد رکن کو حزبِ اختلاف کے اکثریتی اراکین کی حمایت حاصل ہو تو ہ قائد حزبِ اختلاف بھی بن سکتا ہے۔
فورم