پاکستان کے صوبے پنجاب کی حکومت نے لاہور میں اورنج لائن ٹرین کو آزمائشی بنیادوں پر چلانے کا آغاز کر دیا ہے۔ البتہ حکام کا کہنا ہے کہ شہری اس سروس سے لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد ہی استفادہ کر سکیں گے۔
اس ضمن میں منگل کو اورنج لائن ٹرین کو 27 کلو میٹر پر مشتمل پورے ٹریک پر ڈیرں گجراں سے لے کر علی ٹاؤن تک آزمائشی طور پر چلایا گیا۔ ٹرین نے 27 کلومیٹر کا فاصلہ 40 منٹ میں طے کیا۔ جس میں ایک اعشاریہ سات کلو میٹر کا زیرِ زمین سفر بھی شامل تھا۔
پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب کچھی، وزیر اطلاعات فیاض الحسن، مشیر خزانہ پنجاب سلمان شاہ سمیت چینی انجینئرز اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے ٹرین میں سفر کیا۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی(ایل ڈی اے) کے چیف انجینئر حبیب رندھاوا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس آزمائشی سفر کا مقصد نہ صرف ٹرین کا ٹیسٹ ہے بلکہ اس بات کا بھی تعین کرنا ہے کہ جو انفراسٹرکچر بنایا گیا ہے وہ کس حد تک مکمل اور محفوظ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بھی کمرشل بنیادوں پر ٹرین کو 15 روز میں چلایا جا سکتا ہے۔ البتہ حفاظت اور دیگر عوامل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے عوام کے لیے شروع کرنے میں مزید ڈھائی ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹرین بجلی سے چلے گی، لہذٰا ماحول پر اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
منصوبے پر آنے والی لاگت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر چیف انجینئر ایل ڈی اے کا کہنا تھا کہ لاگت سے زیادہ ہمیں اس منصوبے کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ لاہور کے عوام کے لیے یہ منصوبہ کتنا کارآمد ہے۔ یہ نہ صرف لاہور بلکہ پورے پاکستان کا منصوبہ ہے۔
اورنج لائن ٹرین منصوبہ ہے کیا؟
پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی شہباز شریف نے 2015 میں اورنج لائن منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس منصوبے کے تحت لاہور کے علاقے ڈیرہ گجراں سے علی ٹاؤن تک 27 کلو میٹر ٹریک پر ٹرین چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس ٹرین کے لیے لاہور کی جی ٹی روڈ، شالا مار باغ، باغبانپورہ، ریلوے اسٹیشن، لکشمی چوک، جی پی او، جین مندر، چوبرجی، ملتان روڈ، منصورہ، ٹھوکر نیاز بیگ سمیت 26 اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔
حکام کے مطابق یہ ٹرین دو انجنوں اور تین بوگیون پر مشتمل ہو گی جبکہ 200 افراد بیٹھ کر اور 800 کھڑے ہو کر اس میں سفر کر سکیں گے۔ ٹرین روزانہ 16 گھنٹے چلے گی۔
شہباز شریف حکومت نے منصوبے پر لگ بھگ ایک کھرب ساٹھ ارب لاگت کا اعلان کیا تھا۔ البتہ تاریخی مقامات زد میں آنے کے معاملے پر حکم امتناعی کے باعث منصوبے تاخیر کا شکار بھی ہوا۔ جس کے بعد ناقدین اس خدشے کا اظہار کرتے رہے کہ اس منصوبے کی لاگت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی شہباز شریف بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان حکم امتناعی نہ دیتی تو یہ منصوبہ 2017 میں مکمل کر لیا جاتا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے پر تنقید کرتی رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی بطور اپوزیشن رہنما اس منصوبے کے سخت مخالفین میں شامل رہے ہیں۔
البتہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ چوں کہ اس منصوبے پر اربوں روپے لاگت آ چکی ہے۔ لہذٰا اسے مکمل کرنا اب مجبوری بن چکا ہے۔
شہباز شریف کی سابق حکومتِ پنجاب کا یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان، چین اقتصادی راہداری کا حصہ اس منصوبے پر آنے والی لاگت کا بڑا حصہ چین کا بینک آسان شرائط پر قرض کی صورت میں پنجاب حکومت کو دے گا۔