امریکہ کو مطلوب ترین دہشت گرد اُسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے آپریشن میں ہلاکت کے واقعہ پر پاکستانی اور امریکی عہدے داروں کی طرف سے نئی معلومات ذرائع ابلاغ کو دی گئی ہیں۔
اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے امریکی کمانڈوز کی 2 مئی کو کی گئی کارروائی سے پہلے سی آئی اے کے اہلکار ایبٹ آباد میں کرائے پر حاصل کیے گئے ایک محفوظ گھر سے کئی ماہ تک القاعدہ کے مفرور سربراہ کی قلعہ نما رہائش گاہ کی خفیہ طور پر نگرانی کرتے رہے ،وہاں کے مکینوں اور مہمانوں کی تصاویر بناتے رہے۔
امریکی حکام کے بقول ایبٹ آبادمیں اُسامہ بن لادن کے گھر سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق وہ اپنی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ باقاعدہ مسلسل رابطے میں تھا۔
اسی مواد کے ابتدائی جائزے کے بعد صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے جمعرات کو سکیورٹی حکام کو چوکنا رہنے کی ہدایات جاری کیں کیونکہ گزشتہ سال القاعدہ امریکہ میں ریلوے نظام کی تنصیبات پر حملے کرنے پر غور کر رہی تھی۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق عربی زبان پر مشتمل دستاویزات کے انگریزی زبان میں کیے گئے ترجمے سے کسی ایک مخصوص منصوبے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
ان دستاویزات کی تفصیلات سے آگاہ ایک امریکی عہدے دار نے نیویارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”وہ (بن لادن )محض ایک علامتی سربراہ نہیں تھا۔ وہ القاعدہ کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ اپنے تیار کیے گئے منصوبوں اور ممکنہ اہداف کے بارے میں اپنے خیالات کا مسلسل تبادلہ کرتا رہا۔“
امریکی سی آئی اے کی ٹیم کو بن لادن کی پناہ گاہ کی نگرانی کے دوران بہت مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ اُسے نہ صرف اُن القاعدہ کے مشتبہ کارندوں سے اپنے آپ کو خفیہ رکھنا تھا جن کی نگرانی پر اُنھیں مامور کیا گیا بلکہ مقامی باشندوں، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی نظروں سے بھی بچنا پڑ رہا تھا۔
اس دوران وہ گھر کے اندر موجود افراد کی آوازسننے کے لیے مختلف نوعیت کے جدید آلات استعمال کرتے رہے جبکہ مصنوعی سیارے سے چلنے والے ریڈار سے یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ اُسامہ کی پناہ گاہ میں فرار کے لیے کوئی خفیہ سرنگ تو گھر میں نہیں بنائی گی۔
امریکی سی آئی اے کی ٹیم ایک لمبے قد کے آدمی کو باقاعدگی سے گھر کے صحن میں چہل قدمی کرتے دیکھاکرتی تھی لیکن جاسوسی کے اس مشن کی محدود صلاحیتوں کے باعث کسی مرحلے پر یہ تصدیق نہیں ہو سکی کے یہ شخص دراصل بن لادن ہے۔
لیکن پاکستا ن میں اعلیٰ عسکری حکام نے ذرائع ابلا غ کے نمائندوں کو جمعرات کی شب جو معلومات فراہم کی ہیں اُن کے مطابق پاکستان کی حراست میں القاعدہ کے سربراہ کی تین بیویوں میں سے ایک نے پاکستانی تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ وہ پچھلے پانچ سال سے ایبٹ آباد میں بلال ٹاؤن کے مکان میں رہائش پذیر تھے اوروہ پہلی مرتبہ اپنے کمرے سے باہر نکلی ہیں جبکہ 2 مئی کو امریکی فورسز کے آپریشن سے پہلے بن لادن بھی کمرے سے کبھی باہر نہیں نکلا۔
پاکستان کی آئی ایس آئی اور فوج کے اعلی حکام کے بقول مالی معاملات پر القاعدہ تقسیم ہو چکی اور تنظیم کے نائب لیڈر ایمن الظواہری نے اُسامہ بن لادن کوعملی طور پر سائیڈ لائن یا غیر موثر کردیا تھا۔
پاکستانی حکام کے مطابق اُسامہ کی تین بیویوں کے علاوہ 13بچے بھی اُن کی حراست میں ہیں ۔یمن سے تعلق رکھنے والی ایک بیوی کے بیان کے مطابق اپنے شوہر کو بچانے کی کوشش میں اُنھیں گولی لگی لیکن اُن کے بے ہوش ہو کر گرنے سے پہلے تک اُسامہ بن لادن زندہ تھا۔ لیکن حکام کے مطابق القاعدہ کے سربراہ کی ایک بیٹی نے تصدیق کی ہے کہ اُس کے والد کو اُس کی آنکھوں کے سامنا ہلاک کیا گیا۔