رسائی کے لنکس

بلوچ یکجہتی مارچ پر مبینہ کریک ڈاؤن؛ 'جن کی شناخت نہیں ہو سکی صرف وہ زیرِ حراست ہیں'


نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے بلوچ یکجہتی مارچ میں شامل گرفتار خواتین کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے۔ بدھ کی شب یہ مارچ تربت سے 26 دن کا سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچا تھا۔ جہاں مبینہ طور پر پولیس نے مارچ کے شرکا کو لاٹھی چارج، واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران خواتین سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

اسلام آباد پولیس نے خواتین کو گرفتار کرنے کی تردید کی ہے جب کہ یکجہتی مارچ کے منتطمین کا دعویٰ ہے کہ بدھ کی شب سے 50 خواتین لاپتا ہیں۔ پولیس نے 218 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ پولیس نے اسلام آباد کے داخلی راستے ترنول سے گرفتار افراد کو جمعرات کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے ریمانڈ کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا اور 33 افراد کو پانچ،پانچ ہزار کے مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

یاد رہے کہ بلوچستان کے علاقے تربت میں سی ٹی ڈی کے ساتھ مبینہ مقابلے میں چار افراد کی ہلاکت پر لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔ لواحقین کا دعویٰ ہے کہ مارے جانے والے افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔ رواں ماہ مارچ کے شرکا نے کوئٹہ اور پھر اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا۔

اس واقعے پر بلوچستان پولیس نے بالاچ بلوچ اور دیگر تین افراد کے قتل کا مقدمہ بالاچ کے والد مولا بخش کی مدعیت میں ایس ایچ او سی ٹی ڈی اور دیگر اہلکاروں کے خلاف درج کیا ہے۔ مقدمے میں قتل اور اقدامِ قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

سی ٹی ڈی پولیس نے گزشتہ ماہ مقابلے میں چار دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مقابلے میں مارے جانے والے افراد کی شناخت بالاچ مولا بخش، سیف اللہ، ودود اور شکور کے ناموں سے ہوئی تھی۔

محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ بالاچ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا رکن تھا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق بالاچ نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ اور آئی ای ڈی (بم) نصب کر چکا ہے۔ وہ بارودی مواد اپنے دیگر ساتھیوں کے پاس لے کر جا رہا تھا جنہوں نے موٹر سائیکل آئی ای ڈی پہلے سے تیار کر رکھی تھی اور تربت شہر میں دہشت گردی کی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔

'بلوچ مظاہرین پرامن تھے، مقامی لوگوں نے تصادم کی صورتِ حال پیدا کی'

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس معاملے پر تین حکومتی وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جس میں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی، وزیرِ نجکاری فواد حسن فواد اور وزیرِ ثقافت جمال شاہ شامل ہیں۔

جمعرات کی شام پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمیٹی کے اراکین نے دعویٰ کیا کہ تمام گرفتار مظاہرین کو شناخت کے بعد رہا کر دیا گیا ہے اور صرف وہ افراد زیرِ حراست ہیں جن کی ابھی شناخت نہیں ہو سکی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا سختی کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن خفیہ معلومات تھیں کہ مرکزی شاہراہ پر زیادہ دیر احتجاج سے ناخوش گوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مظاہرین زیادہ تر پرامن تھے اور تصادم نہیں چاہتے تھے البتہ مقامی لوگوں نے تصادم کی صورتِ حال پیدا کی۔ نگراں وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ مستند اطلاعات موجود تھیں کہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ بھی پیش آ سکتا ہے۔

بلوچ مسنگ پرسنز مارچ کے شرکا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:03 0:00


اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مظاہرین کی پٹیشن

جبری گمشدگیوں کے خلاف لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاریوں اور تشدد کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مظاہرین سمی دین بلوچ اور سلام بلوچ کی طرف سے عدالت میں ایک پٹیشن بھی داخل کی گئی۔

پٹیشنرز کی جانب سے ایمان مزاری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئیں۔ ایمان مزاری نے عدالت میں کہا کہ پر امن بلوچ مظاہرین بدھ کو اسلام آباد پہنچے جن پر لاٹھی چارج اور فورس کا استعمال کیا گیا اور انہیں حراست میں بھی لیا گیا جو غیر قانونی ہے۔ ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ مظاہرین میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو چار بجے طلب کر لیا۔

شام چار بجے عدالت میں پیش ہونے پر آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر نے کہا کہ اسلام آباد میں سیکیورٹی کے حالات اور کرسمس کی وجہ سے سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ بدھ کی شب اسلام آباد کے داخلی راستے پر لوگوں نے دھرنا دیا جس سے روڈ بلاک ہوئی، ہم نے درخواست کی کہ راستہ چھوڑ دیں لیکن ان لوگوں نے انکار کر دیا۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ بلوچستان سے آئے لوگ پریس کلب کے باہر 23 دن سے بیٹھے تھے لیکن اتنے دن سے وہ پرامن تھے لیکن گزشتہ رات ان لوگوں نے ریڈ زون کی طرف جانے کی کوشش کی۔ پریس کلب سے نکلنے والے مظاہرین ڈی چوک سے سو میٹر کے فاصلے پر پہنچے تو پولیس پر پتھراؤ کیا جس کی وجہ سے بعض پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ لہذا اس صورتِ حال میں ایکشن لینا مجبوری تھی۔


آئی جی اسلام نے کہا کہ ہم نے کسی خاتون کو گرفتار نہیں کیا، کوئی بچہ گرفتار نہیں ہے۔ صرف ایک خاتون گرفتار ہوئیں جنہیں رہا کردیا گیا ہے۔ آئی جی کے مطابق درج ہونے والی دو ایف آئی آرز میں اس وقت 215 لوگ گرفتار ہیں۔

دورانِ سماعت عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ آئی جی صاحب دیکھیے گا آپ کا کوئی آفیسر کوئی رکاوٹ نہ ڈالے جس پر آئی جی اسلام آباد نے یقین دہانی کرائی کہ ہمارے ملک کے بچے ہیں ہم خیال رکھیں گے۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے

دوسری جانب کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کونسل کے لانگ مارچ کی شرکا کی گرفتاریوں پر بلوچ طلبہ تنطیموں نے احتجاج کیا۔ مظاہرین کی ایک بڑی تعداد مارچ کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی اور ہائی کورٹ کے سامنے جمع ہوئی اور احتجاجی دھرنا دیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی اسلام آباد کا رخ کریں۔

ادھر بلوچ قوم پرست پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا اور اب بھی رشتے خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہے کیوں کہ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG