صومالیہ سے الگ ہونے والے صومالی لینڈ کے ایک متنازعہ سرحدی قصبے لاس عانود کے ایک اسپتال کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہفتوں کی شدید لڑائی میں تقریباً 200 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
تقریباً ایک ماہ سے صومالی لینڈ کی فوج لاس عانود کے کنٹرول کے لیے قبائلی ملیشیا کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ صومالی لینڈ، نے جو تین دہائیاں قبل صومالیہ سے الگ ہو گیا تھا، 2008 سے اس قصبے کو کنٹرول کر رکھا ہے، لیکن مقامی قبیلے صومالیہ کی وفاقی حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی حکومت چاہتے ہیں۔
جنگ بندی کے لیے مقامی اور بین الاقوامی مطالبات کے باوجود لڑائی جاری ہے، جس سے اس علاقے میں جو پہلے ہی بحرانوں کی زد میں ہے انسانی بحران میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
لاس عانود کے جرجار اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اسماعیل محمود نے بتایا کہ زخمی مریضوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے، جب کہ لڑائی میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر متاثرین عام شہری ہیں۔
محمد نے کہا کہ اسپتالوں پر گولہ باری کی وجہ سے شہر کی صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی لاس عانود اسپتال کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے جس میں تقریباً تمام شعبہ جات صومالی لینڈ فورسز کی گولہ باری سے تباہ ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گزشتہ ماہ لاس عانود میں تشدد کو کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، اور موگادیشو میں وفاقی حکومت کی طرف سے بھی اسی طرح کی اپیلیں کی گئیں تھیں لیکن ان پر دھیان نہیں دیا گیا اور دونوں فریقوں نے شدید فائرنگ کا تبادلہ جاری رکھا۔
قرنِ افریقہ سے متعلق ایک سیکیورٹی اور سیاسی تھنک ٹینک صحارن ریسرچ کے بانی میٹ برائیڈن نے وی او اے کو بتایا کہ لاس عانود میں اس وقت تنازعہ کے فوری حل کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صومالی لینڈ، صول ریجن پر اپنے دعوے کو آسانی سے ترک نہیں کرے گا، جس میں لاس عانود واقع ہے، کیونکہ اس سے اس علاقے کے ایک آزاد ملک کے طور پر تسلیم کیے جانے کے دباؤ کو نقصان پہنچے گا۔
موگادیشو میں قائم گورننس تھنک ٹینک کے بانی احمد ہادی نے وی او اے کو بتایا کہ صومالی لینڈ، صومالیہ کے نیم خودمختار پنٹ لینڈ کے علاقے اور صول کے علاقے میں موجود قبیلوں کے درمیان مفادات کا ٹکراو ہے،جس کی وجہ سے لڑائی طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔
(وی او اے نیوز)