عالمی بینک کے صدر نے کہا ہےکہ مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے ممالک جہاں عوامی احتجاج کے نتیجے میں جابر حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنا پڑا وہاں کے اقتصادی حالات بہتر بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔
اُنھوں نےیہ بات علاقائی ماہرین کی کانفرنس میں کہی جسے عالمی بینک کے تعاون سے واشنگٹن میں منعقد کیا گیا۔
عالمی بینک کے صدر رابرٹ زوئلک کا کہنا تھا کہ عرب ممالک میں احتجاج کی زیادہ تر وجہ اقتصادی اور سماجی مشکلات ہیں ۔
اُن کے مطابق نوجوانوں کےلیے ملازمتیں حاصل کرنا مشکل ہو رہا تھا اور اُن کے پاس معاشی صورتحال بہتر بنانے کے مواقع کم تھے ۔ اس کے علاوہ حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں تھی اور نہ ہی صاف شفاف ادارے تھے جو حکمرانوں کا احتساب کر سکیں اور جہاں عام شہریوں کی شنوائی ہو ۔
اُن کے الفاظ میں، اُن میں سے بہت سے مسائل گھمبیر ہیں اور اُن کو حل کیے جانے میں وقت لگے گا، تاہم صرف حکومتوں کے بدلنے یا رہنماوٴں کی تبدیلی سے یہ مسائل نہیں سلجھیں گے۔
زوئلک نے کہا کہ عالمی بینک نے حکومتوں کی کارکردگی، نوجوانوں میں بےروزگاری ، تعلیم اور دوسرے مسائل پر کئی رپورٹیں شائع کی ہیں ۔
اِس کانفرنس میں زیادہ بحث اِن تحریکوں کے دوران سوشل میڈیا کے کردار کے اِرد گِرد گھومتی رہیں اور یہ سوال اٹھا کہ اِس کی کوئی پیش گوئی کیوں نہیں کر پایا تھا ۔
ریما علی وکیل ہیں اور مشرق وسطی سے متعلق امور کی ماہر ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ عرب ممالک میں اب بھی تفریق کا عنصر موجود ہے جو عام آدمی اور حکومت کو ایک دوسرے سے دور رکھتا ہے۔