متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے 28 تاریخ کو ایک جلسے سے خطاب میں ملک کو بچانے کی غرض سے فوج کو کیا آواز دی کہ اب پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگارا بھی ان کے ہم آواز ہوگئے ہیں۔ پیر پگارا نے الطاف حسین کی طرح ہی یہ کہا ہے کہ وہ مارشل لاء لگانے کی نہیں ملک بچانے کی بات کررہے ہیں۔
منگل کو اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس میں پیر پگارا نے کہا کہ ملک میں تیس چالیس سال تک منظم ( ڈسپلنڈ) ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگی جس کا اپنا آئین ہوگا اور جس میں فوج کا سرابرہ تین سال کی مدت کے لئے ملک کا بھی سربراہ مقرر ہوگا۔ تین سال بعد جو بھی فوج کا نیا سربراہ بنے گا وہی ملک کے اقتدار پر بھی براجمان ہوجائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک سے سیاست کے ساتھ ساتھ بدمعاشی، لوٹ مار اور چوری چکاری، بے روزگاری وغیرہ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ تمام جرنیل محب وطن ہیں۔ فوج جان بچانے کیلئے آرہی ہے۔ ملک میں ضرورت پڑی تو 40,30 برس کے بعد انتخابات ہوں گے۔
اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے کہا تھا کہ فوج عوام کا ساتھ دے اور ملک کو چوروں اور لٹیروں سے نجات دلائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کو مارشل لاء لگانے کی نہیں پاکستان بچانے کی دعوت دے رہا ہوں۔ جو وڈیروں، جاگیرداروں، لٹیرے سرمایہ داروں کے خلاف عوام کا ساتھ دے گا وہ محب وطن جرنیل ہوگا۔
الطاف حسین نے یہ بھی کہا تھا کہ ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اورغربت کی وجہ سے لوگ فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اس صورتحال کا ذمہ دار فوج کو قرار دے رہے ہیں۔
فوج کو پکارنے سے متعلق بیانات پر کراچی کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے ہمارے یہاں یہ روایت بنتی جارہی ہے کہ جب بھی فوج اقتدار میں نہیں ہوتی اسے اسی طرح ملک بچانے کی دوہائی دے دے کر بلایا جاتا رہا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی نسیم اختر کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ماضی میں بہت سارے سیاستدان رات کے اندھیرے میں فوجی سربراہوں سے ملتے اور انہیں اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ رہی بات پگارا صاحب کی تو انہیں تو بہت پہلے فوجی بوٹوں کی آواز سنائی دیتی رہی ہے۔
سی این بی سی پاکستان سے وابستہ ایک اور تجزیہ نگار اسد اللہ کا کہنا ہے کہ جب عام آدمی ملک کی موجودہ غیر اطمینان بخش صورتحال پر کڑھ سکتا ہے تو پھر بھلا پگارا صاحب کیوں نہ طیش میں آئیں گے۔ کیا وہ حالات سے بخوبی آگاہ نہیں!! یہ ان کا غصہ ہے جو انہوں نے ایک طرف سیاستدانوں اور مولویوں کو برابھلا کہا۔ اصل میں کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملک کس طرف جارہا ہے۔ آج ہی کا واقعہ لے لیں۔ شہباز بھٹی کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ یہ ہوا کا رخ متعین کررہا ہے، سیاسی ماحول اور مذہبی عنصر کی موجودگی کا پتہ دے رہا ہے۔
کراچی کے ایک کالج میں سیاسیات کے معلم محمد احمد قادری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی غریب عوام کے پاس فوج ہی ایک ایسا ادارہ بچا ہے جسے وہ 'ڈوبتے کو تنکے کا سہارا' سمجھ رہی ہے۔ پھر یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے 64 سالوں میں جمہوریت کم اور آمریت زیادہ رہی ہے۔ اس واسطے بھی لوگ فوج کو اپنے درد کا درماں سمجھتے ہیں۔