وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق افغان وزیر خارجہ نے دونوں ملکو ں کے درمیان تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قریبی تعاون کے بغیر ملک میں امن و استحکام کو بحال کرنے کی افغان حکومت کی کوششوں کا کامیاب ہونا ممکن نہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ افغانستان میں جنگجوؤں کے ساتھ مصالحت کی کوششوں اور اُنھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی کے نفاذ کے لیے بھی پاکستان کی مدد درکار ہوگی۔
بیان کے مطابق وزیر اعظم گیلانی نے افغان وزیر خارجہ کو یقین دلایا کہ اُن کی حکومت افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی پر قائم ہے اور افغانوں کی قیادت میں مفاہمت کی کوششوں کے لیے ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے اپنی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اگر افغان حکومت چاہتی ہے کہ قومی مفاہمت کی کوششوں میں پاکستان اُس کی مدد کرے تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
اُنھوں نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ کسی بھی ملک کو اپنی سرزمین بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دے ۔ پاکستان کا الزام ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت کے افغانستان میں قونصل خانے بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ تاہم بھارتی حکام ان الزمات کو مسترد کرتے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کا سالانہ حجم پچھلے سال 1.5 ارب ڈالر تھا اور افغان وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں وزیر اعظم گیلانی نے اس بات پر زور دیا کہ 2015ء تک سالانہ تجارت کے حجم کے پانچ ارب ڈالر کے ہدف کے حصول کے لیے دونوں ملکوں کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
ایوان صدر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر زرداری نے افغان وزیر خارجہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کو دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہیئے اور پاکستان افغانستان میں سیاسی و اقتصادی بحالی کی کوششوں میں ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔