طورخم اور چمن کے مقام پر پاک افغان سرحدی راستے دو روز تک عارضی طور پر کھلے رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیئے گئے ہیں۔
ان دو روز کے دوران 25 ہزار سے زائد افغان اپنے ملک واپس گئے جب کہ سینکڑوں ایسے پاکستانی جو ویزا لے کر افغانستان گئے ہوئے تھے وہ بھی اپنے وطن واپس آئے۔
پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ طورخم اور چمن کے مقام پر سرحدی راستے سات اور آٹھ مارچ کو صرف ایسے افغانوں کی واپسی کے لیے کھولے تھے جو ویزا لے کر پاکستان آئے تھے اور اپنے ملک واپس جانے کے خواہشمند تھے۔
جب کہ اس دوران ایسے پاکستانیوں کو بھی واپسی کی اجازت تھی جو ویزا کے حصول کے بعد افغانستان گئے تھے۔
سرحدی راستے کھلنے کے بعد لوگوں کو پیدل ہی سرحد عبور کرنے کی اجازت تھی۔
اُدھر طورخم میں پھنسے ہوئے ٹرکوں کے ڈرائیوروں اور مالکان نے جمعرات کو علامتی احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
مظاہرین نے سیاہ جھنڈے اور کتبے اٹھا رکھے تھے اور سرحدی گزرگاہ کو فوری طور پر کھولنے کا مطالبہ کررہے تھے۔
خیبر ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر شاکر آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سرحد بند ہونے کے بعد سے ڈرائیور وہاں پھنسے ہوئے ہیں اور اُن کی مشکلات دن بدن بڑھ رہی ہیں۔
’’ڈرائیوروں کے پاس اب کھانے پینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں، کیوں کہ اُن کے پاس جو رقم تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔۔۔ ڈرائیوروں کا یہ مطالبہ تھا کہ سرحد چند روز کے لیے کھول دی جائے تاکہ گاڑیاں اپنی منزل کو پہنچ سکیں۔‘‘
فروری کے وسط میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے مہلک حملوں میں 120 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے سلامتی کے خدشات کی وجہ سے پاک افغان سرحدی راستے بند کر دیئے تھے۔
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ملک میں حالیہ حملوں کے تانے بانے سرحد پار موجود دہشت گردوں سے ملتے ہیں۔
سرحد کی بندش سے دونوں ہی جانب عام لوگوں اور تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے اور افغانستان کی طرف سے پاکستان سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سرحد ہر طرح کی آمد ورفت کے لیے کھولی جائے۔
پاکستان میں بھی مبصرین کا کہنا ہے کہ سرحد کی بندش کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور اس طرح کے اقدام سے نا صرف ایک سے دوسرے ملک سفر کرنے کے خواہمشند افراد کی مشکلات میں اضافہ میں ہو گا بلکہ دوطرفہ تناؤ بھی بڑھے گا۔