پاکستان کے وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمٰن نے جمعہ کو سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران کہا کہ حکومت افغانستان سے ملحقہ اپنی سرحد پر چار مزید گیٹ یا ’سرحدی راستے‘ تعمیر کرنے پر غور کر رہی ہے۔
اُنھوں نے وقفہ سوالات کے دوران بتایا کہ یہ سرحدی راستے یا گیٹ جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، کرم ایجنسی اور مہمند ایجنسی میں بنائے جائیں گے۔
بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ طورخم اور چمن کے مقام پر قائم دو اہم سرحدی گزر گاہوں کو 2020 تک مزید بہتر بنایا جائے گا۔
واضح رہے کہ وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ بلیغ الرحمٰن کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے تمام سرحدی راستے بند کر رکھے ہیں۔
فروری کے وسط میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے مہلک حملوں میں 120 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے سلامتی کے خدشات کی وجہ سے پاک افغان سرحدی راستے بند کر دیئے تھے۔
پاکستان کا یہ موقف ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی منصوبہ بندی سرحد پار افغانستان میں چھپے دہشت گردوں نے کی۔
پاکستان کی طرف سے افغانستان سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔
افغانستان کی طرف سے بھی ایسا ہی موقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان بھی اپنے ہاں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے۔
نئے سرحدی گیٹ تعمیر کرنے کی تجویز پر تجزیہ کار بریگیڈئیر ریٹائرڈ سعد محمود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہو گی۔
’’آمد و رفت کے جتنے راستے کھلیں گے، دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھے گی، لوگوں کو روزگار ملے۔ جن علاقوں میں ٹرک گزریں گے، راہداری ہو گی وہاں پر اقتصادی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو کشیدگی ہے اُس میں کمی آ سکتی ہے، اعتماد بڑھ سکتا ہے۔‘‘
رواں ہفتے دو روز کے لیے چمن اور طورخم کے مقام پر سرحدی راستے کھولے گئے تھے اور اس دوران 25,000 سے زائد ایسے افغان جو ویزا لے کر پاکستان آئے تھے اپنے ملک واپس گئے۔
سرحد کی بندش سے دونوں ہی جانب عام لوگوں اور تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے اور افغانستان کی طرف سے پاکستان سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ سرحد ہر طرح کی آمد ورفت کے لیے کھولی جائے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سرحد بند کر دینا کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہو گا۔
دریں اثنا انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت کی جانی والی کارروائیوں سے متعلق اعداد و شمار بتاتے ہوئے بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ اس لائحہ عمل کے تحت 1865 دہشت گردوں کو ہلاک جب کہ 5611 مشتبہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا۔
وزیر مملکت برائے اُمور داخلہ کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 414دہشت گردوں کو پھانسی بھی دی گئی ہے، جب کہ دہشت گردوں کو ملنے والی مالی معاونت روکنے کے لیے بھی کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی مشاورت سے انسداد دہشت گردی کا ایک قومی لائحہ عمل بنایا گیا تھا۔