رسائی کے لنکس

افغان سر زمین پر 'پراکسی وار' کا الزام مسترد


حنا ربانی کھر اور امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے درمیان ملاقات بھی یہ اس معاملے پر بات چیت کی گئی۔
حنا ربانی کھر اور امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے درمیان ملاقات بھی یہ اس معاملے پر بات چیت کی گئی۔

دونوں جانب سے ان بیانات کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں بظاہر ایک بار پھر کشیدگی بڑھ گئی ہے جب کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے پاکستان پر امریکی دباؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے امریکہ مخالف عسکری تنظیم حقانی نیٹ ورک کے ساتھ آئی ایس آئی کے رابطوں کی ایک بار پھر تردید کرتے ہوئے افغانستان کی سر زمین پر نیٹو اور افغان افواج کے خلاف ’’پراکسی وار‘‘ یا بالواسطہ جنگ لڑنے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔

امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن نے رواں ہفتے الزام لگایا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی حقانی نیٹ ورک کے ذریعے افغانستان میں نیٹو اور افغان افواج کے خلاف ’’پراکسی وار‘‘ یا بالواسطہ جنگ لڑ رہی ہے۔

مزید برآں بعض امریکی انٹیلی جنس حکام نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے کابل میں امریکی سفارت خانے اور نیٹو افواج کے صدر دفتر پر حملوں میں بھی حقانی نیٹ ورک کی حوصلہ افزائی کی تھی۔

لیکن جمعرات کو پاکستانی دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے افغانستان میں ’’پراکسی وار‘‘ یا بالواسطہ جنگ لڑنے کے الزامات کو رد کیا۔

دونوں جانب سے ان بیانات کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں بظاہر ایک بار پھر کشیدگی بڑھ گئی ہے جب کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے پاکستان پر امریکی دباؤ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

افغان سر زمین پر 'پراکسی وار' کا الزام مسترد
افغان سر زمین پر 'پراکسی وار' کا الزام مسترد


وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے بدھ کو اسلام آباد میں امریکی ایف بی آئی کے سربراہ رابرٹ ملر سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی اعتراف کیا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کا معاملہ دو طرفہ تعلقات میں کشیدگی کی ایک وجہ ہے۔ ’’پاکستانی سرحد کی جانب اس عسکری تنظیم کے ٹھکانے نہیں اور اگر امریکہ اس بارے میں پاکستان کو کوئی ٹھوس شواہد فراہم کرے گا تو اُن کا ملک یقیناً ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرے گا۔‘‘

وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بھی وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی گفتگو میں حقانی نیٹ ورک اور آئی ایس آئی کے درمیان رابطوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہا ہے۔ ’’ پاکستان ایسی کسی بھی کوشش کا نا تو حصہ رہا ہے اور نا ہی رہے گا جس سے افغانستان کے امن کو زد پہنچے۔ اس قسم کا پروپیگنڈا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔‘‘

نیویارک میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کے درمیان اتوار کو ہونے والے ملاقات اور منگل کو امریکی سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریس کی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا سے امریکہ میں ہونے والی بات چیت میں بھی خصوصی طور پر حقانی نیٹ ورک سے نمٹنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔

گذشتہ ہفتے میں خبر رساں ادارے رائیٹرز کو نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر دیئے گئے ایک انٹرویو میں حقانی نیٹ ورک کے مفرور سربراہ سراج الدین حقانی نے دعویٰ کیا تھا کہ میدان جنگ میں کامیابیوں نے اُن کے جنگجوؤں کے لیے افغانستان کو زیادہ محفوظ بنا دیا ہے اس لیے اب اُنھیں سرحد پار سنگلاخ پہاڑیوں پر مشتمل (پاکستانی) قبائلی علاقوں میں پناہ گاہوں کی ضرورت نہیں رہی۔

’’وہ دن گئے جب ہم پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر پہاڑیوں میں چھپتے تھے۔ اب ہم افغان عوام کے درمیان اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں جب کہ اعلیٰ فوجی اور پولیس افسران ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘

XS
SM
MD
LG