بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ذرائع نے کہا ہے کہ ادارے اور پاکستانی حکام کے مابین دوحہ میں 18 سے 25 مئی تک ہونے والی با لمشافہ اور ورچوئل ملاقاتوں کے دوران فریقین نےمجوزہ اقدامات پر غور کیا جن کا مقصد پاکستان کے میکرواکنامک استحکام اور دیرپا افزائش کو فروغ دینا ہے۔
قطر میں منعقد ہونے والے ان اجلاسوں میں آئی ایم ایف کی جانب سے مشن کی قیادت، نتھن پورٹر کر رہے تھے۔
بدھ کو مشن کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے مشن نے پاکستانی حکام کے ساتھ'' انتہائی تعمیری ''مذاکرات کیے۔
بات چیت کا مقصد پالیسیوں اوراصلاحات پر سمجھوتے تک پہنچنا تھا، جس کے تحت حکومتی اصلاحات کے زیر التوا ساتویں رویو پیکیج کو حتمی شکل دی جاسکے، جسے آئی ایم ایف کے توسیحی 'فنڈ فیسلٹی ارینج منٹ' کی حمایت حاصل ہو سکے۔
بیان کے مطابق، ''مشن سے بات چیت کے دوران خاصی پیش رفت ہوئی، جس میں بلند افراط زر میں کمی لانے اور بڑھے ہوئے مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا، جب کہ معاشرے کے کمزور ترین طبقے کو مناسب تحفظ دینے پر گفتگو ہوئی۔
اگرچہ مشن کی جانب سے پاکستان کے نقظہ نظر سے ایک حوصلہ افزا بیان سامنے آیا ہے لیکن پاکستان میں ایک سیاسی ہلچل اور افرا تفری کی صورت حال اور غیر یقینی معاشی صورت حال سے نکلنے کےلیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اوردوسرے ذرائع سے رقوم حاصل کرنے کی کوششوں کے بارے میں بعض معاشی ماہرین کچھ زیادہ پر امید نظر نہیں آتے کہ ادارے سے کوئی ریلیف پیکیج تب تک نہیں مل سکتا ، جب تک کہ حکومت اس کی شرائط کو پورا نہیں کرتی جن کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ گزشتہ دور میں اس وقت سے شروع کردیا گیا تھا جب پٹرول پر یا بجلی کے نرخوں پر عام لوگوں کو قیمتوں میں رعایت یا سبسڈی دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں شاید کوئی بھی سیاسی حکومت پٹرول وغیرہ کی سبسڈی واپس لینے جیسے مشکل فیصلوں کی متحمل نہ ہو سکے گی جس کے بغیر آئی ایم ایف سے کوئی پیکیج ملنے کی بہت زیادہ امید نہیں کی جاسکتی۔
ڈاکٹر ایوب مہر پاکستان کے ایک ممتاز ماہر معاشیات ہیں اور اقرا یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف ہر تین ماہ بعد ریویو کرتا ہے کہ اس کی شرائط پر عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔ اب تک دو ریویو ہو چکے ہیں اور جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ اُس وقت کی حکومت نے پٹرول پر سبسڈی دے کر ان شرائط پر عمل درآمد روک دیا تھا۔
اب جبکہ دوحہ میں مذاکرات ہورہے ہیں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یقیناًیہ دیکھنا چاہے گا کہ نہ صرف اس سبسڈی کو واپس لیا جائے جو دی جا چکی ہے بلکہ جو بقیہ شرائط ہیں ان پر بھی عمل کیا جائے۔ اس وقت ملک میں جو سیاسی ماحول ہے اور موجودہ حکومت کی مدت بھی مختصر ہے وہ سمجھتی ہے کہ سبسڈی ختم کرنے اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے پر عوامی رد عمل آئے گا، جس کی قیمت اسے آنے والے انتخاب میں چکانی پڑے گی۔ اس لیے وہ اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
ہو سکتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرے کہ وہ درآمدات کم کرکے اور دوسرے ذرائع سے اس نقصان کو پورا کرلے گی جو سبسڈی کے سبب ہورہا ہے، لیکن ڈاکٹر مہر ایوب کا کہنا ہے کہ درآمدات کم کرنے کے لیے جن چیزوں پر ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے وہ مجموعی درآمدات کا بہ مشکل دو تین فیصد بنتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ بقیہ درآمدات ویسی کی ویسی ہی رہیں گی۔ اس لیے صورت حال پر کچھ زیادہ اثر پڑتا نظر نہیں آتا۔ آئی ایم ایف کے مطمئن ہونے کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں اور حال ہی میں سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اسے بھی کوئی ریلیف پیکج نہیں مل سکا۔ البتہ، اطلاعات کے مطابق، سعودی عرب نے عندیہ دیا ہے کہ اس کے جو تین ارب ڈالر واجب الادا ہیں ان کی ادائیگی کی مدت میں مزید توسیع کر دی جائے گی۔ لیکن یہ رقم بھی اس طرح اسٹیٹ بنک میں پارک کردی جائے گی جس طرح آئی ایم ایف سے ملنے والی رقوم ہوتی ہیں کہ جن کو حکومت ترقیاتی کاموں میں خرچ نہیں کر سکتی اور یہ پیسے وہاں خرچ کیے جاسکتے ہیں جہاں غیر ملکی زر مبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
یوں، انہوں نےاس وقت تک پاکستان کو تحفظ فراہم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جب تک آئی ایم ایف کے ساتھ اس کی بات نہ بن جائے
لیکن یہ رقم بھی اسٹیٹ بنک میں پارک رہے گی اور درآمدات یا ایل سی کھولنے کے لیے ہی استعمال ہو سکے گی۔ تاہم پاکستان کو وقتی طور پر ریلیف مل جائے گا۔
ڈاکٹر زبیر اقبال ورلڈ بینک کے ایک سابق عہدیدار ہیں اور عالمی مالیاتی ادارے کس طرح کام کرتے ہیں اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور سےعالمی مالیاتی ادارے قرضے دیتے وقت دیکھتے ہیں کہ جس ملک کو وہ قرضہ دے رہے ہیں وہاں کی حکومت اس قابل ہے کہ جو معاہدے کر رہی ہے ان پر پوری طرح سے عمل درآمد کرا سکے گی اور کیا اس ملک میں سیاسی استحکام ہے۔
بقول ان کے، اگر ان باتوں کے سلسلے میں اطمنان نہ ہو تو مذاکرات مشکل ہو جاتے ہیں اور اس وقت پاکستان کی جو صورت حال ہے، جو سیاسی بھونچال ہے اس کو دیکھتے ہوئےآئی ایم ایف چاہے گا کہ پاکستان کا جو بجٹ آنے والا ہے اس میں اس کی شرائط کو جیسے کہ سبسڈی کو ختم کرنا شامل کی جائے اور اگر حکومت ایسا کرنے کے لیے تیار نہ ہوئی تو مذاکرات میں مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔
آنے والے دن نہ صرف سیاسی طور پر پاکستان کے لیے اہم ہیں بلکہ معاشی طور پر اس سے بھی زیادہ نازک ہیں۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بتدریج کم ہورہے ہیں اور سیاسی درجہ حرارت روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں ماہرین کے بقول ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر مستقبل کی کوئی راہ نکالیں۔
بدھ کو مشن کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ مالیاتی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے، دیکھا گیا کہ گزشتہ جائزے کے دوران جن پالیسیوں سے اتفاق کیا گیا تھا ان میں کچھ انحراف نظر آیا، جن میں کسی حد تک ایندھن اور توانائی کی سبسڈیز شامل ہیں جن کا حکام نے فروری میں اعلان کیا تھا۔
وفد نے پالیسی اقدامات کو ٹھوس بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیا، جس میں مالی سال 2023ء کے بجٹ میں ایندھن اور توانائی کے شعبوں میں دی گئی سبسڈیز کو ختم کرنا شامل ہے، تاکہ پروگرام کے مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ''پاکستان کے تمام شہریوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے، آئی ایم ایف کا وفد حکومتِ پاکستان کی پالیسیوں پرمکالمہ اور قریبی رابطہ جاری رکھنے کا منتظر ہے، تاکہ ملک کے میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے میں مدد دی جاسکے''۔