بھارت کے سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے منگل کو اسلام آباد میں اپنے پاکستانی ہم منصب اعزاز احمد چودھری سے ملاقات کی، جس میں دونوں ملکوں نے باہمی مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
وزارت خارجہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد بھارتی سیکرٹری خارجہ نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ اس دورے سے دوطرفہ اُمور پر بات چیت کا موقع ملا۔
اُنھوں نے کہا کہ بات چیت میں ہم نے ایک دوسرے کے تحفظات اور مفاد سے متعلق اُمور پر کھل کر بات چیت کی۔
جے شنکر نے کہا کہ بات چیت میں مل کر کام کرنے اور اختلافات کو کم کرنے کی راہ تلاش کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ سرحدپار دہشت گردی اور ممبئی حملوں سے متعلق مقدمے کے بارے میں اُنھوں نے اپنے ملک کے تحفظات پر بھی بات چیت کی۔
اُنھوں نے کہا کہ سرحد پر امن اور ہم آہنگی بہت اہمیت کی حامل ہے۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے منگل کی شام ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ مذاکرات میں بلوچستان میں مبینہ بھارتی مداخلت اور سمجھوتا ایکسپریس پر حملے سے متعلق انھوں نے اپنے تحفظات سے بھارتی ہم منصب کو آگاہ کیا۔
اعزاز احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے حالیہ واقعات پر بھی پاکستان کے تحفظات کا اظہار کیا گیا جب کہ اُن کے بقول بھارت نے اپنا موقف بیان کیا۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ نے منگل کی شام وزیراعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کی، جس میں دو طرفہ اُمور پر بات چیت کی گئی۔
جے شنکر نے بھارتی وزیراعظم کا ایک خط بھی نواز شریف کو پہنچایا۔
گزشتہ سال اگست میں بھارت کی طرف سے خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کو یک طرفہ طور پر منسوخ کیے جانے کے بعد یہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلا اعلیٰ سفارتی رابطہ ہے۔
مذاکرات کی منسوخی کے بعد پاکستان کا اصرار رہا کہ دو طرفہ مذاکرات بھارت نے منسوخ کیے لہذا اس کی بحالی میں اسے ہی پہل کرنا ہوگی۔
گزشتہ ماہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات چیت میں بتایا تھا کہ ان کے نئے سیکرٹری خارجہ سارک ممالک کا دورہ کر رہے ہیں اور اس دوران وہ پاکستان بھی آئیں گے۔
پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان بات چیت ایسے وقت ہوئی جب دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان تعلقات لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر فائرنگ کے پے درپے واقعات کے باعث خاصے کشیدہ چلے آرہے ہیں۔
پاکستان میں مبصرین کا خیال ہے کہ یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں کمی کی جانب اشارہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔