بھارت نے کہا ہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے گرفتار کیے گئے شخص کا بھارت کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ گرفتار شدہ شخص بھارت کی بحریہ کا سابق افسر تھا لیکن اس نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی جس کے بعد اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وکاس سوروپ نے کہا کہ اُن کے ملک نے بھارتی شہری تک قانونی رسائی دینے کی درخواست کی ہے۔
اس سے قبل جمعہ کی صبح پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی پاکستان میں مبینہ کارروائیوں پر احتجاج کیا ہے۔
وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے بھارتی ہائی کمشنر گوتم بمباوالے کو دفتر خارجہ طلب کر کے ’را‘ کے ایک افسر کے پاکستان میں مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے اور اُن کی بلوچستان اور کراچی میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر احتجاج ریکارڈ کروایا اور اُنھیں اس معاملے پر پاکستان کی تشویش سے بھی آگاہ کیا۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ کے ایک حاضر سروس افسر کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا ہے۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’را‘ کے افسر کی گرفتاری سے یہ بات واضح ہو گئی کہ بلوچستان میں حالات کی خرابی میں پڑوسی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی ملوث ہے۔
پاکستان طویل عرصے سے بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ کی ملک میں مداخلت کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ تاہم بھارت کی طرف سے اس کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
دفاعی تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس واقعہ سے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔
یہ حالیہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی جب گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد تعطل کے شکار دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کا عندیہ دیا گیا تھا۔
یہ ملاقات جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم ’سارک‘ کے وزرائے خارجہ سطح کے نیپال میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی، جس میں رواں برس پاکستان میں ہونے والے سارک سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو باضابطہ دعوت بھی دی گئی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ کی 27 تاریخ کو پاکستان کی ایک تحقیقاتی ٹیم بھارت بھی جائے گی جس کا مقصد بھارت کے شہر پٹھان کوٹ کے فضائی اڈے پر دہشت گرد حملے سے متعلق حقائق اکٹھے کرنا ہے۔
رواں سال جنوری میں پاک بھارت سرحد کے قریب واقع پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر دہشت گردوں کے حملے میں سات بھارتی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے اور بھارت کا الزام ہے کہ حملے میں ملوث شدت پسند سرحد پار پاکستان سے آئے تھے اور اُن کا تعلق کالعدم تنظیم ’جیش محمد‘ سے تھا۔
بھارت کی طرف سے اس بارے میں فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر پاکستان نے اپنے ہاں متعدد گرفتاریاں بھی کیں اور مبینہ دہشت گردوں کے معاونین کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا ہے۔