پاکستان کے ایک سابق سفارت کار طارق فاطمی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ممبئی حملوں کے بعد معطل ہونے والی بات چیت اور رابطے بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور پاک بھارت خارجہ سکریٹریوں کے مابین ہونے والی ملاقاتوں کا انداز مثبت ہے۔اِس لیے،اُن کا کہنا تھا کہ وزرائے خارجہ کی ملاقات میں اہم امور پر بھرپور انداز میں تبادلہٴ خیال کی توقع ہے۔
اُنھوں نے یہ بات ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہی۔
طارق فاطمی نے اِس امید کا اظہار کیا کہ باہمی مذاکرات کا ماحول دوستانہ ہوگا جِس کا ثبوت اسلام آباد کے اجلاس میں مل چکا ہے۔
اُن کے بقول، ’پاکستان میں لوگ یہ امید کررہے ہیں کہ دو اشوز، یعنی سیاچن اور کرکریک، جِن پر کافی کام ہوچکا ہے، اگر اِن پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اپنے بھر پور سیاسی عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی طرح کےسمجھوتے تک پہنچیں تو یہ بات صحیح معنوں میں تعلقات میں بہتری کا موجب بنے گی۔‘
سفارت کار کے مطابق، ممبئی کے حالیہ بم دھماکوں کے بعد بھارت کی طرف سے صورتِ حال کو ’ مثبت اور دانشمندانہ‘ طریقے سے دیکھا اور پیش کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں، طارق فاطمی نے کہا کہ اب تک جو ثبوت ملا ہے اُس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک داخلی مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی اُنھوں نے کہا کہ ایک پاکستانی کے طور پر وہ اِس واقعے کی مذمت کرتے ہیں ۔ اُنھوں نے کہا کہ ابھی تک بھارت کا ردِ عمل’ بہت ہی ذمہ دارانہ اور پختہ ‘ نوعیت کا رہاہے، جو کہ ایک حوصلہ بڑھانے والی بات ہے۔
بھارت کے ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر منیش کمار کا کہنا تھا کہ دونوں پاکستان و بھارت کے سیاسی حلقوں اور مختلف اندازِ فکر رکھنے والوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کا مسئلہ ہے جِس سے دونوں ملک آپس میں تعاون بڑھا کر نمٹ سکتے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اورسیاست دانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح سے ہندوستان دہشت گردی کا شکار ہے اُسی طرح پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔ڈاکٹر منیش کمار کا کہنا تھا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کی حکومتیں اور عوام مل کر دہشت گردی کے مسئلے سے نبردآزما ہوں،اور یہ کہ،’ اِس معاملے پر سیاست نہ کی جائے‘۔
اُنھوں نے خارجہ سکریٹری مذاکرات کے بارے میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو اب بیانات سے آگے بڑھ کر اعتماد کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدام لینا چاہئیں۔ اُنھوں نے حکومت اور سول سوسائٹی کے درمیان اعتماد سازی کے لیے بھی قدم اُٹھانے پر بھی زور دیا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: