ان اعلیٰ سطح کے سٹریٹجک مذاکرات کی روح یہ تھی کہ باہم اعتماد کی کمی پر کس طرح قابو پایا جائے ۔ پاکستان میں یہ احساس اب بھی باقی ہے کہ امریکہ نے اس وقت پاکستان کو اپنے مطلب کے لیے پارٹنر بنایا ہوا ہے اور جب طالبان اور القاعدہ کو شکست دینے کا مقصد حاصل ہو جائے گا تو پاکستان کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔اور ادھر امریکہ میں پالیسی سازوں کے حلقے میں بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ کیادہشت گردی کے خلاف جد و جہد میں پاکستان واقعی مخلص ہے ۔
یو ایس آرمی وار کالج کے پروفیسرلیری گوڈسن کہتے ہیں کہ بدگمانیاں دور ہونے میں وقت لگے گا۔ انھوں نے کہا’’ایک طرح سے یہ میاں بیوی کی کونسلنگ کی طرح ہے۔ اگر تعلقات بہت خراب ہیں لیکن آ پ نے انہیں بہتر کرنے کا تہیہ کر لیا ہے تو پھر کہیں نہ کہیں تو ابتدا کرنی ہوگی۔ شاید آپ سے کہا جائے گا کہ آپ پھول بھیجنا شروع کر دیں۔ آپ کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ اگر آپ ہمیشہ تاریک پہلو پر نظر رکھیں گے تو پھر تو بات نہیں بنے گی۔‘‘
کانگریشنل ریسرچ سروس میں جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار ایلن کرونسٹڈٹAlan Kronstadt کہتے ہیں کہ اس بار سٹریٹجک ڈائیلاگ میں نیا لب و لہجہ دیکھنے میں آیا۔’’ہو یہ رہا ہے کہ اب ایک برس سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کا لب و لہجہ اور رویہ پاکستان کے ساتھ مختلف ہے اور اس سے کچھ فرق پڑا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایسا تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے یہ احساس پیدا ہو کہ یہ باہم اعتماد پر قائم ہے ۔‘‘
لیری گوڈسن کہتے ہیں کہ پاکستان نے حال ہی میں بعض اہم طالبان شخصیات کو گرفتار کیا ہے اور سرحد کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فوجی کارروائی کی ہے ۔ پاکستانی قیادت کی اب یہ کوشش ہے کہ ان گرفتاریوں کو سٹریٹجک ڈائیلاگ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جائے ۔
امریکہ نے پاکستانی کے توانائی، پانی، زراعت اور تعلیم کے شعبوں میں امداد کے نئے وعدے کیے ہیں اور واشنگٹن نے وعدہ کیا ہے کہ بغاوت کے خلاف پاکستان کے اخراجات کی جو ادائیگی کی جانی ہے امریکہ اس میں تیزی سے کارروائی کرے گا۔
لیکن پاکستان کو اصل دلچسپی سویلین نیوکلیئر طاقت کے سودے میں ہے، جس طرح کا سمجھوتہ بھارت اور امریکہ کے درمیان ہوا ہے ۔پاکستان میں بجلی کی شدید قلت ہے۔ لیکن جب اس بارے میں رپورٹروں نے وزیرِ خارجہ کلنٹن سے سوال کیا تو انھوں نے صاف جواب نہیں دیا۔ انھوں نے کہا’’ہم نے کہا ہے کہ ہم اپنے پاکستانی شراکت داروں کی ہر بات سنیں گے اور ان کا وفد جوبھی مسئلہ اٹھانا چاہے اس پر بات چیت کریں گے۔ ہم نے توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے میں پاکستان کی مدد کا وعدہ کیا ہے ۔‘‘
ایلن کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ نے پچھلی انتظامیہ کے مقابلے میں زیادہ شائستہ اور نرم جواب دیا ہے۔ یہ ایسی تبدیلی ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیئے۔ بُش انتظامیہ اس قسم کی تجویز کا جواب صاف انکار کی صورت میں دے دیتی۔ لیکن اب ہماراا یسا تعلق ہے جو تبدیل ہو رہا ہے ۔ اگر کوئی دوست آپ سے کوئی درخواست کرے تو آپ ٹکا سا جواب نہیں دیتے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ مستقبلِ قریب میں کیا ہوگا لیکن ہم یہ ضرور دیکھ رہے ہیں کہ اس قسم کی درخواست کے جواب میں امریکہ کے رویے میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے ۔
لیکن لیری گوڈسن کو شبہ ہے کہ پسِ پردہ کسی زیادہ ٹھوس تجویز پر کام ہو رہا ہے ، لیکن یہ بھارت کے ساتھ ہونے والے سودے سے مختلف ہو گی۔’’بھارتی حکومت، پاکستانی حکومت اور امریکی حکومت سب کے بیانات سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ یہ اس قسم کا سودا نہیں ہوگا جیسا بھارت کے ساتھ ہوا ہے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ کوئی خفیہ سودا یا کوئی مفاہمت ہو گی ضرور جو پاکستان کوبھارت کی سطح پر تو نہیں لائے گی لیکن جس کے ذریعے پاکستان کے ساتھ سویلین نیوکلیئر پروگرام میں پیش رفت ہوگی۔‘‘
پاکستان کے نیوکلیئر سائنسدان عبدالقدیر خان نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں جو کردار ادا کیا اس کی وجہ سے امریکہ میں اور وی آنا میں نیوکلیئر سپلائیرز گروپ کوسیاسی طور پر پاکستان کے ساتھ کسی نیوکلیئر سودے کی تجویز پر قائل کرنا مشکل ہوگا ۔