پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف منگل کو امریکہ کے سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔
خطے کے موجودہ حالات خاص طور پر افغانستان میں سلامتی کی صورت حال اور پاکستان و بھارت کے درمیان کشیدگی کے تناظر میں اس دورے کو خاصا اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تجارت خرم دستگیر نے منگل کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ دیگر اہم اُمور پر بات چیت کے علاوہ پاکستان کی یہ خواہش ہو گی کہ اُس کی مصنوعات کو امریکی منڈیوں تک زیادہ رسائی حاصل ہو سکے۔
’’پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی ہے اور جس قسم کی امریکی منڈی تک اُسے رسائی ملنی چاہیئے وہ پاکستان کو نہیں مل سکی اور اس معاملے میں دونوں معیشتوں میں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے۔ امریکہ دنیا کی ایک بڑی معیشت ہے اور پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس لحاظ سے بھی پاکستان کو جو رسائی ملنی چاہیئے تھی وہ ابھی تک حاصل نہیں ہو سکی، تو وزیر اعظم کا پورا فوکس تجارتی تعلقات اور پاکستان کی مصنوعات خاص طور پر ٹیکسٹائلز کی جو امریکی منڈی تک رسائی ہے اس کو بہتر بنانے کے لیے وہ ضرور گفتگو کریں گے۔ ‘‘
اُن کے بقول اگرچہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں بہتری آئی ہے لیکن تجارت اور سرمایہ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔
’’ پچھلے 11 سالوں سے بلکہ کچھ زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کہ جب سے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بنے ہیں کوئی قابل ذکر تجارتی مراعات امریکہ کی طرف سے نہیں دی گئیں۔۔۔۔ پاکستان پہلے سے امریکہ کے جی ایس پی کا حصہ ہے بہت سال یہ معطل رہا ہے اور چند ماہ پہلے ہی یہ بحال ہوا ہے۔‘‘
وزیر تجارت خرم دستگیر کا بھی ماننا ہے کہ اس دورے میں افغانستان کی صورت حال سمیت علاقائی معاملات بات چیت کے لیے اہم اُمور رہیں گے۔
’’اس میں بہت بڑا حصہ، اس دورے کا جو وزیر اعظم نواز شریف واشنگٹن کا کر رہے ہیں۔ افغانستان کی جو صورت حال ہے اس سے متعلق ہو گا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان جو تناؤ ہے اس کے اوپر بھی گفتگو ہو گی، کشمیر پر گفتگو ہو گی تو محور تو زیادہ اس میں سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مسئلوں پر ہے۔ لیکن بہرحال وزیر اعظم کی مختصر گفتگو کا ایک اہم حصہ جو ہے وہ امریکہ اور پاکستان کے تجارتی تعلقات میں بہتری ہے۔‘‘
واضح رہے کہ رواں ماہ ہی امریکہ کے صدر براک اوباما نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء سے متعلق ترمیم شدہ منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2016 میں بھی امریکی فوجیوں کی موجودہ تعداد یعنی 9,800 اہلکار افغانستان میں تعینات رہیں گے اور 2017 میں جب وہ اقتدار چھوڑ رہے ہوں گے تو اُس وقت بھی لگ بھگ 5,500 فوجی افغانستان میں ہوں گے۔
صدر اوباما کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں امن و مصالحت سے متعلق معاملات پر بھی وزیراعظم نواز شریف سے بات چیت کریں گے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی امریکہ روانگی سے قبل ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں سامنے آئیں کہ اس دورے کے دوران امریکہ کے صدر براک اوباما پاکستان کے جوہری اثاثوں کے تحفظ پر زور دیں گے۔
جب کہ بعض خبروں میں پہلے یہ کہا گیا کہ اس دورے کے موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان سویلین جوہری معاہدے سے متعلق بات چیت ہو گی لیکن بعد میں وائٹ ہاؤس کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ فی الحال ایسے کسی معاہدے کی توقع نہیں۔
تاہم پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ روانگی سے قبل ایک بیان میں کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے اور اس کے ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں جن کے تحفظ کے لیے ’فول پروف‘ انتظامات موجود ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جوہری طاقت کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف دفاع کے لیے ہے۔
واضح رہے کہ موجودہ دور اقتدار میں وزیراعظم نواز شریف کا یہ امریکہ کا دوسرا سرکاری دو طرفہ دورہ ہے، اس سے قبل اُنھوں نے اکتوبر 2013ء میں پہلا دورہ کیا تھا۔