رسائی کے لنکس

پاک امریکہ تعلقات میں حالیہ اتارچڑھاؤ کی کہانی


گزشتہ برس نومبر میں افغان سرحد کے ساتھ واقع پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو کے حملے اور 24 سپاہیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں آنے والے اتار چڑھاؤ پر ایک نظر:

یکم مارچ: ایک امریکی قانون ساز نے پاکستان کے صوبے بلوچستان کی آزادی کی قرار ایوانِ نمائندگان میں پیش کی۔ گوکہ قرارداد کو امریکی انتظامیہ اور اراکینِ کانگریس کی حمایت حاصل نہیں تھی لیکن پاکستانی سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ نے اس پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا۔

23 فروری: امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر سے ملاقات کی۔ سیکرٹری کلنٹن نے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کے پاکستان میں جاری پارلیمانی جائزے کی تکمیل کے بعد دونوں ممالک کے درمیان موجود روایتی روابط کی مکمل بحالی پر زور دیا۔

31 جنوری: امریکہ کے صدر براک اوباما نے پہلی بار باضابطہ طور پر پاکستان میں موجود شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون طیاروں کے استعمال کا اعتراف کیا۔ پاکستان کی حکومت ڈرون حملوں کو "غیر قانونی، غیر پیداواری اور ناقابلِ قبول" قرار دیتی ہے۔

23 جنوری: پاکستانی افواج نے امریکہ کا یہ دعویٰ مسترد کردیا کہ امریکی فوجیوں نے سلالہ کی پاکستانی فوجی چوکیوں پر حملہ اپنے دفاع میں کیا تھا کیوں کہ امریکی حکام کے بقول پاکستانی چوکیوں کی جانب سے امریکی فوجیوں پر فائرنگ کی گئی تھی۔

24 دسمبر: ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا کہ امریکی خفیہ ایجنسی 'سی آئی اے' نے پاکستانی قبائلی علاقوں میں گزشتہ چھ ہفتوں سے ڈرون حملے روک رکھے ہیں جس کا مقصد پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے ماحول سازگار کرنا ہے۔

نومبر: سلالہ چیک پوسٹوں پر حملے کے بعد پاکستان نے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے رسد جانے والے قافلوں کو سرحد پار کرنے سے روک دیا اور صوبہ بلوچستان میں موجود ایک ہوائی اڈے کو امریکی فوجیوں سے خالی کرالیا۔

XS
SM
MD
LG