امریکی اور پاکستانی عہدے داروں نے حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں کئی اہم طالبان کی گرفتاری اور ہلاکت کی اطلاع دی ہے ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں اور ہم آہنگی میں اضافہ ہوا ہے ۔
امریکہ پر11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد جب امریکہ اور پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف حکمت عملی شروع کی اس وقت تسنیم نورانی پاکستان کی وزارتِ داخلہ میں سیکرٹری تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ شروع میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلق بہت مضبوط تھا لیکن یہ تعلق بتدریج کمزور ہوتا گیا۔ امریکی عہدے دار بس ایک ہی رٹ لگاتے رہتے تھے کہ افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان آ جانے والے طالبان کے خلاف پاکستان کو اور زیادہ سخت کارروائی کرنی چاہیئے ۔
لیکن نورانی کہتے ہیں کہ اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے مقامی طالبان تحریک کو شکست دینے پر جو توجہ دی ہے اس سے امریکہ مطمئن ہے ۔ وہ کہتے ہیں’’میرے خیال میں گذشتہ برسوں میں ہوا یہ ہے کہ پاکستان کے تعاون اور امریکہ کی طرف سے اس کے اعتراف کے طور پر امداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ احساس بھی بیدار ہوا ہے کہ پاکستان کے لوگوں کے دِل جیتنا اہم ہے۔ شروع کے چند برسوں میں یہ احساس پیدا نہیں ہوا تھا۔‘‘
اسلام آباد کے حالیہ دورے میں، امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریئس نے پاکستان کی اس حکمت عملی کی حمایت کی کہ حال ہی میں پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائیوں میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، پہلے ان پر اپنی گرفت مضبوط کی جائے، اس سےپہلے کہ قبائلی علاقوں میں افغان طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ کیا جائے۔
جنرل پیٹریئس نے یہ بھی کہا کہ کراچی اور کوئٹہ میں افغان طالبان لیڈروں کی گرفتاری، امریکہ اور پاکستان کے درمیان انٹیلی جینس میں کامیابی کا نتیجہ تھی ۔
پاکستان کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر تنویر احمد خان اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’میرا خیال ہے کہ پاکستانی طالبان اور افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے رویے میں جو فرق تھا اس میں کمی آئی ہے ۔ اس وجہ سے زیادہ بہتر تعاون، بہتر ہم آہنگی اور انٹیلی جینس کا تبادلہ ممکن ہوا ہے ۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنوبی افغانستان میں بڑے پیمانے پر نیٹو کا جو ملٹری آپریشن جاری ہے اور امریکی صدر باراک اوباما نے جو یہ اعلان کیا ہے کہ اگلے سال فوجوں کی واپسی شروع ہو سکتی ہے اس سے پاکستان کو یقین ہو گیا ہے کہ اب فیصلہ کن کارروائی کا وقت آ گیا ہے ۔انھوں نے کہ ’’پاکستان اس مفروضے پر کام کر رہا ہے کہ بڑی حد تک افغانستان میں اب کھیل ختم ہونے والا ہے۔ پاکستان کو شدید تشویش ہے کہ جب معاملات اختتام کو پہنچیں تو اس میں وہ بھی شامل ہو۔‘‘
لیکن دونوں ملکوں کے درمیان طالبان کے خلاف جنگ میں بہتر رابطوں کے باوجود وزارت داخلہ کے سابق سیکرٹری تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے میں امریکی کوششوں پر مایوسی ہوئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں’’پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ امریکہ بھارت پر اس قسم کے کسی انتظام کے لیے دباؤ ڈالے گا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو مسائل ہیں وہ طے ہوجائیں تا کہ پاکستان یکسوئی سے مغربی سرحد پر اپنی پوری توجہ دے سکے۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا ہے ۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ سفارتکار جمعرات کو اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے لیے ملاقات کررہے ہیں۔ 2008 کے آخر میں ممبئی پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد، یہ ان کی پہلی ملاقات ہوگی۔
علاقے کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سفارتی رابطوں سے دو طرفہ کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی جس کے بعد پاکستان اپنے شمال مغربی علاقوں کو محفوظ بنانے کے لیے فوجی کوششوں میں اضافہ کر سکے گا۔