امریکہ کے ایک وفد نے جمعہ کو پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقاتیں کیں، جس میں دوطرفہ تعلقات اور اعتماد سازی سے متعلق اُمور پر خاص طور پر بات چیت کی گئی۔
امریکی وفد میں شامل پاکستان و افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن کے علاوہ صدر براک اوباما کے سینیئر مشیر اور ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا پیٹر لیوائے نے سرتاج عزیز سے وزارت خارجہ میں ملاقات کی۔
وزارت خارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق دوطرفہ تعلقات، علاقائی سلامتی اور 21 مئی کو بلوچستان میں ہونے والے ڈرون حملے کے بعد افغان امن عمل سے متعلق کھل کر بات چیت کی گئی۔
بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا کہ 21 مئی کو بلوچستان میں کیا جانے والا ڈرون حملہ نا صرف پاکستان کی سالمیت بلکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس ڈرون حملے سے دوطرفہ تعلقات بھی متاثر ہوئے۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے اس بات پر زور دیا کہ مستقبل میں کوئی بھی ڈرون حملہ دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی مشترکہ خواہش کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
سرتاج نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب پاکستان چار ملکی گروپ کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہا تھا، ڈورن حملے نے امن و مصالحت کی ان کوششوں کو متاثر کیا۔
بیان کے مطابق پاکستان میں طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں سے متعلق امریکہ کی تشویش کے بارے میں پاکستانی وفد نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت پاکستانی سرزمین سے تمام دہشت گردوں کے خاتمے کے ہدف کی تکمیل کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
تاہم یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے موثر سرحدی نگرانی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کے جلد واپسی بھی چاہتا ہے۔
بیان کے مطابق پیٹر لیوائے نے صدر اوباما کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا پیغام بھی پہنچایا۔
اُنھوں نے کہا کہ صدر اوباما پاکستان سے تعلقات میں بہتری کے لیے پرعزم ہیں۔
امریکہ کا یہ وفد ایسے وقت پاکستان کا دورہ کر رہا ہے جب گزشتہ ماہ بلوچستان میں ایک امریکی ڈرون حملے کے بعد دوطرفہ تعلقات میں کچھ تناؤ آیا ہے۔
21 مئی کو بلوچستان میں کیے گئے ڈرون حملے میں طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان نے اس حملے کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفیر کو طلب کر کے اپنا شدید احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا۔
اس ڈورن حملے کی نا صرف پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے طرف سے مذمت کی گئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کو بھی دھچکا لگا۔
پاکستان کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے چار ملکی گروپ کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو بھی ڈرون حملے سے نقصان پہنچا ہے۔
افغان امن و مصالحت کے عمل کے لیے افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین پر مشتمل چار ملکی گروپ کا پانچواں اجلاس 18 مئی کو پاکستان میں ہوا تھا، جس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے سیاسی مسئلے کا واحد حل امن مذاکرات ہی ہیں۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق امریکی وفد سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ افغانستان میں دیرپا امن کے لیے چار ملکی گروپ میں شامل تمام رکن ملک مشترکہ کوششیں کریں۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان افغان فورسز سے بھی یہ توقع کرتا ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کے اقدامات سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان عدم اعتماد میں کمی واقع ہو گی۔