پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے بیسویں آئینی ترمیم کے مسودے پردستخط کردیئے ہیں جس کے بعد یہ ترمیم اب مکمل طورپرآئین کاحصہ بن گئی ہے۔صدر نے منگل کی شام مسودے پر دستخط کئے جبکہ اسے پہلے ہی پاکستان کی قومی اسمبلی و سینیٹ متفقہ طور پر منظوری دے چکی ہے۔ بنیادی طور پر 20ویں ترمیم کے ذریعے آئین کی چھ شقوں میں ترمیم اور ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔ مسودے پر دستخط کے بعدمیڈیا سے گفتگو میں صدر زرداری کا کہنا تھا کہ اس ترمیم سے شفاف اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار ہو گی اور اب کوئی نمائندہ یا جماعت انتخابات میں دھاندلی کا الزام نہیں لگا سکے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ بیسویں ترمیم کی منظوری سے نگراں حکومت کے سیٹ اپ اور آزادالیکشن کمیشن کے معاملات خوش اسلوبی سے طے پاجائیں گے ۔
بیسویں ترمیم کے فوائد
بیسویں ترمیم کی منظوری سے فوری فائدہ یہ ہوا ہے کہ 6 فروری 2012ء کو سپریم کورٹ کی جانب سے19 اپریل 2010ء کے بعد ضمنی انتخابات میں منتخب ہونے والے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے 28 اراکین کی معطل رکنیت بحال ہوئی ہے۔
شفاف انتخابات کا انعقاد
پاکستان کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کا یہ آخری سال ہے ، اگلے سال کے شروع میں ہی پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں جبکہ انتخابات کا اعلان رواں سال کے آخر ی مہینوں میں متوقع ہے لہذا اس ترمیم کے ذریعے پہلی مرتبہ ایسا ہوگا کہ انتخابات کے لئے تشکیل دی جانے والی نگراں حکومت کو اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی منظوری حاصل ہوگی۔ یوں انتخاب ہارنے والی جماعت یہ الزام عائد نہیں کرسکے گی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ کیوں کہ نگراں وزیراعظم کا نام وزیراعظم اور اپوزیشن راہنما مل کر تین دن کے اندر اندر تجویز کریں گے ۔
اگر اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کے درمیان اتفاق رائے قائم نہ ہو سکا تو پھریہ معاملہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین پر مشتمل کمیٹی کرے گی جس کی تشکیل اسپیکر قومی اسمبلی کریں گی ۔اگر اس کمیٹی میں بھی اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکا توپھر چیف الیکشن کمشنر کومعاملہ بھیج دیا جائے گا جو خود نگراں وزیراعظم کے نام کو فائنل کریں گے۔ چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ حتمی تصور کیا جائے گا ۔
بیسویں ترمیم سے قبل کم و بیش ہرپارلیمانی انتخابات کے بعد الیکشن ہارنے والی جماعت دھاندلی کا الزام لگاکر انتخابی نتائج مسترد کردیا کرتی رہی ہے، لہذا اس ترمیم کے بعد ایک تو یہ الزام نہیں لگایا جاسکے گا تو دوسری جانب اس ترمیم سےقبل رخصت ہونے والی برسر اقتدارجماعت ہی نگراں حکومت تشکیل دیتی تھی اور اس پر بھی اپوزیشن یہ الزام عائد کرتی تھی کہ نگراں حکومت طرفداری کررہی ہے۔
اس ترمیم سے پہلے یہ الزامات بھی لگتے رہے ہیں کہ شفاف الیکشن کمیشن تشکیل نہیں دیا جاتا لہذا انتخابی نتائج غیر شفاف الیکشن کمشنر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے یہ راستہ بھی رک گیا ہے۔
ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کے ارکان کی مدت دو سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ہر صوبے سے چار اراکین اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ان سب کا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی طرح کا حلف ہو گا۔ کمیشن کے اراکین کو ہٹانے کا طریقہ کار بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی طرح ہی ہو گا اور ان کی مدت ملازمت کو آئینی تحفظ حاصل ہو گا ۔
بیسویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ صدارتی الیکشن کا انتظام الیکشن کمیشن کرے گا ۔ خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے جو بھی نشست خالی ہو گی اس پر امیدوار کے انتخاب کا اختیار متعلقہ جماعت کے سربراہ کا ہوگا ۔
پی ٹی آئی کے تحفظات
بیسویں ترمیم پر سب سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف تحفظات کا اظہار کر رہی ہے ۔ منگل کو بھی شیخوپورہ میں جلسہ عام سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں ساڑھے آٹھ سو ارب روپے کی کرپشن پر قابو پانے کیلئے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی لیکن بیسویں ترمیم پر اپوزیشن یعنی (ن لیگ) اور حکومت ( پیپلزپارٹی) نے تین روز میں اتفاق کر لیا ۔ عمران خان کا کہنا تھا ”اصل میں دونوں جماعتیں تحریک انصاف کے سونامی سے خوفزدہ ہیں ، اسی لئے دونوں جماعتیں اپنی مرضی کی نگراں حکومت لائیں گی اور انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کیے جائیں گے ۔
اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے دواوراکین نے بھی سینیٹ میں بیسویں ترمیم کے خلاف ووٹ دے کر تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ ادھر پی پی پی اور ن لیگ کاکہنا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت پہلے بیسویں ترمیم کے ڈرافت کا مطالعہ کرے اس کے بعد کوئی بات کرے ۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1