پاکستان میں گزشتہ برس تیزاب گردی یا تیزاب سے حملوں کے واقعات میں 2014ء کے بعد سے مجموعی طور پر 50 فیصد کمی دیکھی گئی جو کہ ماہرین کے بقول ایک مثبت رجحان کو ظاہر کرتی ہے لیکن اسی عرصے میں خواتین پر حملوں کی شرح میں اضافہ بھی دیکھا گیا۔
تیزاب کے حملوں سے متاثر ہونے والوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن" نے خواتین سے متعلق قومی کمیشن اور یورپی یونین کے اشتراک سے مرتب کردہ رپورٹ حال میں جاری کی جس میں تیزاب گردی کی اس شرح کی طرف نشاندہی کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق 2014ء کے مقابلے میں گزشتہ سال تیزاب سے حملوں کے واقعات میں 51.91 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
تاہم جہاں مجموعی طور پر اس شرح میں کمی دیکھی گئی وہیں رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ مرد متاثرین کی نسبت خواتین کے تیزاب سے متاثر ہونے کی شرح میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق 2014ء میں تیزاب کے حملوں سے 66.19 فیصد متاثر ہونے والی خواتین تھیں جب کہ مردوں کی شرح 32.85 تھی۔ 2015ء میں خواتین کی شرح 67.3 جب کہ مردوں کی شرح 32.6 رہی۔
گزشتہ برس کے اعداد و شمار میں خواتین کی شرح 69.9 جب کہ مردوں 26.21 فیصد تھی۔
نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن خاور ممتاز کہتی ہیں کہ مجموعی شرح میں کمی ایک مثبت بات ہے لیکن خواتین پر تیزاب سے حملوں کی شرح کا زیادہ ہونا اب بھی ایک تشویشناک امر ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح خواتین کے خلاف ایسے واقعات کو کم کیا جائے۔
رپورٹ میں مجموعی صورتحال میں بہتری کو اس ضمن میں بنائے گئے قوانین اور ان کے اطلاق سے جوڑا گیا لیکن ساتھ ہی اس بارے میں مزید اقدام کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
خاور ممتاز کہتی ہیں کہ قانون بن جانے کے بعد اس کے نفاذ پر توجہ دینے سے ہی معاملات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں جیسے کہ اس بارے میں دیکھنے میں آیا ہے۔
"ہمارے ہاں قانون بنتے ہیں اور ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس پر عمل نہیں ہو رہا لیکن چونکہ اس قانون کے ساتھ ایک لائحہ عمل بنا لیا گیا ہے اس کے تحت ہمیں لگتا ہے کہ اس کی اب نگرانی ہو رہی ہے اور اس پر احتساب کا بھی سایہ ہے۔۔۔پورا ایک نیٹ ورک ہے سول سوسائٹی اور کمیونٹی کا اور پولیس والے بھی فون کر کے بتاتے ہیں تو پوری ایک حکمت عملی بن گئی ہے اس کی۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب نہ صرف تیزاب کے حملوں کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں بلکہ اس طرف بھی توجہ دی جاتی ہے کہ متاثرین کو بروقت طبی امداد ملے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کے لیے موثر قانون سازی کے علاوہ اس کے موثر نفاذ کے لیے بھی پرعزم ہے۔
حکمران جماعت کی رکن قومی اسمبلی مائزہ حمید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا۔
"وزیراعظم مُصر ہیں کہ قوانین کا اطلاق بھی ہو تو جب یہ نافذ ہو رہے ہیں تو اس سے جو پیغام جا رہا ہے لوگوں تک تو وہ ایسے غلط کام کرنے میں ان کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جیسے کہ تیزاب گردی کے معاملے میں بھی دیکھا گیا ہے۔"
پاکستان میں 2011ء میں متعارف کروائے گئے قانون کے مطابق تیزاب سے حملوں کے مرتکب مجرم کو 14 سال قید کی سزا ہوگی جب کہ اب اسے عمر قید تک بڑھانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔