وزارت برائے سرحدی اُمور کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود تقریباً 30 لاکھ افغان پناہ گرینوں میں سے 20 لاکھ کی رجسٹریشن مکمل کر لی گئی ہے جب کہ باقی افراد کے کوائف کے اندارج کا کام جاری ہے۔
وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور شوکت اللہ خان نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ملک میں موجود غیر ملکیوں کے مکمل کوائف جمع کیے جائیں اور اُن کی وزارت اپنے دائرہ اختیار کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن میں مصروف ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ ملک میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ تیزی سے شرح پیدائش میں اضافہ ہے۔ ’’ان کی شرح پیدائش کافی زیادہ ہے، غیر سرکاری طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ 6.6 فیصد ہے جب کہ سرکاری طور پر یہ 4.4 فیصد ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے۔‘‘
شوکت اللہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تین دہائیوں سے موجود افغان پناہ گزینوں کے لیے بین الاقوامی برادری کی طرف سے ملنے والی امداد میں کمی کے باعث بھی حکومت کو ان لاکھوں افراد کی موزوں انداز میں دیکھ بھال کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے اندرون ملک نقل مکانی کرنے والوں کی دیکھ بھال بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان میں آباد افغان مہاجرین کے قیام کو منظم بنانے کے لیے حکومت نے 2010ء میں پناہ گزینوں کو شناختی یا پروف آف رجسٹریشن کارڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان میں عارضی قانونی قیام کے لیے یہ شناختی کارڈز انتہائی ضروری ہیں جو دسمبر 2012ء تک قابل استعمال ہوں گے۔
افغانستان، پاکستان اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مشترکہ فیصلے کے مطابق افغان پناہ گزین دسمبر 2012ء تک پاکستان میں رہ سکتے ہیں، لیکن یہ حتمی ڈیڈ لائن نہیں ہے اورطے شدہ معیاد کے اختتام پر اس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔