اسلام آباد —
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ’یو این ایچ سی آر‘ نے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی رضاکارانہ وطن واپسی کی معیاد میں چھ ماہ کی توسیع کے حکومتی فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
ادارے کی ایک ترجمان دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ اقدام افغان پناہ گزینوں کی رضا کارانہ وطن واپسی کے پاکستان کے عزم اور اس معاملے میں حکومت کی سنجیدگی کا عکاس ہے۔
انھوں نے بتایا کہ چھ ماہ کی توسیعی مدت میں پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے ان کا ادارہ دیگر فریقین سے مل کر مختلف امور پر کام کرے گا۔
’’سرحدی امور کی وزارت کے ماتحت ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں پاکستان کی وزارت خارجہ اور داخلہ کے لوگ بھی شامل ہوں گے جو افغان حکومت اور یو این ایچ سی آر کے ساتھ مل کر مخصوص موڈیلیٹیز طے کریں گے کہ 30 جون 2013ء کے بعد کیا ہونا چاہیئے۔‘‘
دنیا اسلم خان نے بتایا کہ رواں سال کے اختتام تک افغانستان واپس جانے والے پناہ گزینوں کو ان کے ادارے کی طرف سے روز مرہ استعمال کی ضروری اشیاء میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہر شخص کو 150 ڈالر بھی ادا کیے جا رہے ہیں۔ لیکن ان کے بقول اس زاد راہ کو 150 سے بڑھا کر 200 ڈالر کرنے کی ایک تجویز بھی زیر غور ہے جس پر حتمی فیصلہ آئندہ ماہ متوقع ہے۔
پاکستان میں 16 لاکھ رجسٹرڈ اور تقریباً 10 لاکھ غیر اندراج شدہ افغان پناہ گزین موجود ہیں جب کہ رواں سال کے آخر تک لگ بھگ دو لاکھ پناہ گزین وطن واپس جا سکیں گے۔
رواں ہفتے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ایک اعلیٰ سطحیٰ اجلاس میں افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی معیاد میں چھ ماہ کی توسیع کا اعلان کیا تھا جس سے پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے درمیان معاہدے میں بھی توسیع ہوگئی تھی۔
دنیا اسلم خان نے بتایا کہ پاکستان کے سرحدی امور اور ریاستوں کے وزیر شوکت اللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اندراج شدہ پناہ گزینوں کی شناختی دستاویزات بھی اب چھ ماہ بعد تک قابل عمل رہیں گی گو کہ ان کے کارڈز پر درج تاریخ 30 دسمبر 2012ء ہے۔
حالیہ دنوں میں ایک سامنے آنے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں مقیم لگ بھگ 80 فیصد افغان پناہ گزین وطن واپس جانا نہیں چاہتے۔
اس پر دنیا اسلم خان کا کہنا تھا کہ ان پناہ گزینوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے اور افغانستان میں ان کی آباد کاری اور روزگار سے متعلق حالات میں بہتری آئی ہے۔
ادارے کی ایک ترجمان دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ اقدام افغان پناہ گزینوں کی رضا کارانہ وطن واپسی کے پاکستان کے عزم اور اس معاملے میں حکومت کی سنجیدگی کا عکاس ہے۔
انھوں نے بتایا کہ چھ ماہ کی توسیعی مدت میں پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے ان کا ادارہ دیگر فریقین سے مل کر مختلف امور پر کام کرے گا۔
’’سرحدی امور کی وزارت کے ماتحت ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں پاکستان کی وزارت خارجہ اور داخلہ کے لوگ بھی شامل ہوں گے جو افغان حکومت اور یو این ایچ سی آر کے ساتھ مل کر مخصوص موڈیلیٹیز طے کریں گے کہ 30 جون 2013ء کے بعد کیا ہونا چاہیئے۔‘‘
دنیا اسلم خان نے بتایا کہ رواں سال کے اختتام تک افغانستان واپس جانے والے پناہ گزینوں کو ان کے ادارے کی طرف سے روز مرہ استعمال کی ضروری اشیاء میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہر شخص کو 150 ڈالر بھی ادا کیے جا رہے ہیں۔ لیکن ان کے بقول اس زاد راہ کو 150 سے بڑھا کر 200 ڈالر کرنے کی ایک تجویز بھی زیر غور ہے جس پر حتمی فیصلہ آئندہ ماہ متوقع ہے۔
پاکستان میں 16 لاکھ رجسٹرڈ اور تقریباً 10 لاکھ غیر اندراج شدہ افغان پناہ گزین موجود ہیں جب کہ رواں سال کے آخر تک لگ بھگ دو لاکھ پناہ گزین وطن واپس جا سکیں گے۔
رواں ہفتے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ایک اعلیٰ سطحیٰ اجلاس میں افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی معیاد میں چھ ماہ کی توسیع کا اعلان کیا تھا جس سے پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے درمیان معاہدے میں بھی توسیع ہوگئی تھی۔
دنیا اسلم خان نے بتایا کہ پاکستان کے سرحدی امور اور ریاستوں کے وزیر شوکت اللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اندراج شدہ پناہ گزینوں کی شناختی دستاویزات بھی اب چھ ماہ بعد تک قابل عمل رہیں گی گو کہ ان کے کارڈز پر درج تاریخ 30 دسمبر 2012ء ہے۔
حالیہ دنوں میں ایک سامنے آنے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں مقیم لگ بھگ 80 فیصد افغان پناہ گزین وطن واپس جانا نہیں چاہتے۔
اس پر دنیا اسلم خان کا کہنا تھا کہ ان پناہ گزینوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے اور افغانستان میں ان کی آباد کاری اور روزگار سے متعلق حالات میں بہتری آئی ہے۔