پاکستان نے بدھ کو اسلام آباد میں افغان ناظم امور کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے سرحد پار سے ’’دہشت گردوں‘‘ کے حملے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کابل کی طرف سے ایسی کارروائیوں کو روکنے پر زور دیا۔
وزارت خارجہ سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ منگل کو رات دیر گئے 70 سے 80 شدت پسندوں نے افغان سرحد کے قریب دیر کے علاقے میں داخل ہو کر پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ کیا تاہم بروقت کارروائی سے اسے ناکام بنا دیا گیا۔
وزارت کی ترجمان کے مطابق اس کارروائی میں سات عسکریت پسند ہلاک اور نو زخمی ہوئے۔
’’افغان انتظامیہ پر ایک بار پھر روز دیا گیا کہ افغان سرزمین کو سرحد پار دہشت گردوں کی فائرنگ اور حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔‘‘
ترجمان کے مطابق اس بات پر پھر زور دیا گیا کہ ایسے میں جب پاکستان دہشت گردوں اور ان کی کمین گاہوں کے خلاف ضرب عضب کے ذریعے کوشش کررہا ہے افغانستان کی طرف سے ان کی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے اڈوں کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون اور اقدامات کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا جائے گا تاکہ سرحد پر سیکورٹی بڑھانے کے لیے کام کیا جا سکے۔
اس سے قبل بھی متعدد بار پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ سرحد پار افغانستان سے شدت پسند پاکستانی علاقوں میں گھس کر کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ ان کی جھڑپوں میں جانی نقصان بھی ہوتا رہا ہے۔
اس تازہ واقعے پر افغانستان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
باور کیا جاتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ اکثر ہلاکت خیز کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں بھی قبائلی علاقے باجوڑ میں مبینہ طور پر سرحد پار سے آنے والے شدت پسندوں کے ایک حملے میں پاکستانی فورسز کے ایک افسر سمیت تین اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستانی فوج نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف گزشتہ ماہ سے بھرپور فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشن کی وجہ سے فرار ہوکر افغانستان جانے والے شدت پسندوں کو روکنے کے لیے کابل اپنی طرف سرحد پر سخت انتظامات کرے۔
ایک روز قبل ہی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا بھی یہ بیان سامنے آیا تھا کہ پاک افغان سرحد پر ہونے والی دراندازی سے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن متاثر ہو رہا ہے اس لیے اسے روکنے کے لیے موجودہ نظام کو مضبوط بنانا ہو گا۔