پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں شدید دباؤ کا شکار ہے اور حکومت اس کا ذمہ دار ڈالر کے غیر قانونی لین دین کو قرار دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں کئی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔
پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے گزشتہ چند روز کے دوران کراچی، اسلام آباد، پشاور اور کئی دیگر شہروں میں کرنسی کی مبینہ غیر قانونی لین دین میں ملوث کئی افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ایک ایسے ہی چھاپے کے دوران ایف آئی اے کے کمرشل بینک سرکل کے افسران نے کراچی کے علاقے گلشن اقبال اور صدر میں واقع ایکسچینج کمپنی کے دفتر پر کارروائی کی اور ملزمان کے قبضے سے 36 ہزار 394 امریکی ڈالرز برآمد کر کے انہیں ضبط کیا ہے۔
حکام کے مطابق ملزمان افغانستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کا فائدہ اٹھا کر ڈالر کی غیر قانونی منتقلی سے پاکستانی روپے کی قدر کو نقصان پہنچا رہے تھے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں ایک چھاپے کے دوران 19 لاکھ پاکستانی روپے مالیت کی غیر ملکی کرنسی، چیک بکس، حوالہ ہنڈی میں استعمال ہونے والی رسیدیں اور دیگر اشیا برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ملک بھر سے امریکی ڈالر کی زخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ میں ملوث ایسے 88 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے اس وقت تک 47 کے خلاف مقدمات بھی قائم کیے جاچکے ہیں۔
ان کے بقول حکومت نے ملک کی پانچ بڑی ایکسچینج کمپنیوں کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یومیہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر کیش کی صورت میں افغانستان لے جایا جا رہا ہے جو سال کا تقریباً ساڑھے چار ارب ڈالر سے زائد بنتا ہے۔
ڈالر کی افغانستان منتقلی کی روک تھام کے لیے حکومت نے 22 اکتوبر سے افغانستان کا سفر کرنے والے افراد کو اپنے ہمراہ صرف ایک ہزار امریکی ڈالر فی کس فی وزٹ لے جانے کی اجازت دی ہے جب کہ 500 امریکی ڈالر اور زائد کے مساوی تمام بیرونی کرنسی کی فروخت کی ٹرانزیکشنز اور بیرونِ ملک بھیجی جانے والی ترسیلات زر کے لیے ایکسچینج کمپنیوں کو بایو میٹرک تصدیق کرانے کی بھی شرط عائد کر دی گئی ہے۔
معاشی ماہرین نے اس فیصلے کو تو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ان کے خیال میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے چھاپوں سے منفی تاثر قائم ہو گا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد میں معاشیات کے پروفیسر عبدالجلیل ڈالر کی اونچی اڑان کا ذمے دار اسٹیٹ بینک کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے مرکزی بینک ڈالرز کی افغانستان منتقلی کا کہہ کر اس کے پیچھے اپنی کارکردگی چھپانا چاہتا ہے۔ درحقیقت ڈالرز کی افغانستان منتقلی صرف اندازوں پر ہی مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی 'بڑے پیمانے پر افغانستان منتقلی' کی افواہیں غیر یقینی اور مصنوعی طلب کو فروغ دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسٹیٹ بینک اس بارے مکمل تحقیقات کرائے اور یہ معلوم کرے کہ کس قدر رقم منتقل کی گئی ہے۔
عبدالجلیل کے مطابق رواں برس مئی سے اب تک پاکستانی روپے کی قدر میں 10 فی صد کے اردگر کمی دیکھی گئی ہے جو کرنسی کی شرح تبادلہ میں آنے والا قدرتی نتیجہ ہے جس کہ وجہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ، مہنگائی اور منفی حقیقی شرح سود ہے۔
ان کے بقول، "پاکستانی معیشت کے خدو خال کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روپیہ دباؤ میں ہی رہے گا اور اس کی قدر میں مزید کمی کا امکان ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کو فاریکس مارکیٹ میں چپکے چپکے مداخلت کرنے کے بجائے علی الاعلان اقدامات کرنے کی ضرروت ہے۔ تاکہ فارن ایکسچینج مارکیٹ میں مصنوعی طلب کا خاتمہ ہو اور مارکیٹ کو قیاس آرائیوں کے حملوں سے بچایا جائے۔