پاکستان نے جنگ سے تباہ حال پڑوسی ملک افغانستان میں صحت اور تعلیم کے شعبے میں شروع کیے گئے مختلف منصوبوں کی تکمیل کا سلسلہ بحال کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں سڑکوں، ریلوے نظام اور توانائی کے منصوبوں کے لیے بھی ہر ممکن مدد فراہم کرے گا۔
یہ بات پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں اپنے افغان ہم منصب اکلیل احمد حکیمی سے ملاقات میں کہی۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ مضبوط، مستحکم اور تعاون پر مبنی تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور ان کے بقول ایسے تعلقات دونوں ملکوں کے لیے باہمی طور پر سود مند ہیں جن سے علاقائی امن و تجارت اور اقتصادی مواقع کو فروغ ملے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں خصوصاً سابق افغان صدر حامد کرزئی کے ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط دور حکومت میں دوطرفہ روابط میں تناؤ غالب رہا۔
لیکن گزشتہ سال اشرف غنی کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد دونوں ملکوں کے مابین اعلیٰ سطحی رابطوں میں اضافہ ہوا اور ماضی کی نسبت تعلقات میں قابل ذکر حد تک بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
مبصرین دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کو اعتماد میں فروغ اور خاص طور پر انسداد دہشت گردی کے ضمن میں خطے کی سلامتی کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے طورخم، جلال آباد شاہراہ کے لیے رقم جاری کر دی ہے اور ایک ماہ کے اندر اندر یہاں کام کا سلسلہ بحال ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداری "ٹرانزٹ ٹریڈ" منصوبے کے سلسلے میں "ویب بیسڈ ون کسٹمز" کے نام سے ایک نظام بھی وضع کیا ہے جس سے تجارتی عمل میں شفافیت کے علاوہ دونوں جانب کے کسٹم حکام اور درآمدکندگان کے لیے افغانستان جانے والے سامان کی معلومات رکھنے میں سہولت ہو گی۔
دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی راہداری کا معاہدہ 2010ء میں طے پایا تھا جس کے تحت افغانستان کے سامان سے لدے ٹرکوں کو طے شدہ مخصوص راستے کے ذریعے لاہور کے قریب واہگہ سرحد اور کراچی میں ساحل سمندر تک لے جانے کی اجازت دی گئی تھی جہاں سے یہ سامان بھارت بھیجا جاتا ہے ۔
پاکستان کا اصرار رہا ہے کہ اس راہداری کے معاہدے میں تاجکستان کو بھی شامل کیا جانا ہے جس پر تاحال کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی اور اسحاق ڈار نے اپنے افغان منصب سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں اپنی جانب ضروری دستاویزی کارروائی مکمل کرے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے ہی افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ اگر پاکستان بھارت سے افغانستان کے لیے درآمد کیے گئے سامن کے لیے واہگہ کا راستہ نہیں کھولتا تو وہ پاکستانی سامان کے لیے وسطی ایشیا تک رسائی فراہم نہیں کریں گے۔