حکومت مخالف احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی لیکن ساتھ ہی ایک بنیاد پرست کالعدم مذہبی گروپ کو وفاقی دارالحکومت میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے پر پاکستانی عہدیداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف پر بدعنوانی کا الزام عائد کر کے اُن کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے آئندہ بدھ کو اسلام آباد میں ایک بڑے احتجاجی جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔
لیکن حکومت نے جمعرات کو ہی شہر میں ہر قسم کے سیاسی و مذہبی جلسوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے تحریک انصاف کے احتجاج میں شامل ہونے کی کوشش کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا۔
اسلام آباد کو جانے والے راستوں کو انتظامیہ نے کنٹینرز لگا کر جزوی طور پر بند کر رکھا ہے جب کہ پولیس شہر کی طرف آنے والے ’پی ٹی آئی‘ کے کارکنوں کو بھی منتشر کر رہی ہے۔
عمران خان کو بھی اسلام آباد میں بنی گالہ کے علاقے میں واقع ان کی رہائش گاہ تک محدود کر دیا گیا ہے جہاں ان کی جماعت کے دیگر راہنما بھی موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے دو نومبر کو ہر صورت حکومت مخالف احتجاج کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
ادھر جمعہ کو دن بھر اور پھر رات گئے تک پی ٹی آئی کے حامیوں کی پولیس سے آنکھ مچولی جاری رہی جب کہ سنی مسلک سے تعلق رکھنے والی "اہلسنت والجماعت" نے حکومتی پابندی کے باوجود اسلام آباد کے قلب میں اپنا جلسہ منعقد کیا۔
وفاقی وزارت داخلہ کے حکام مذہبی جماعت کے جلسے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہلسنت والجماعت نے اپنے اس سالانہ اجلاس کے لیے پیشگی اجازت لے رکھی تھی۔
لیکن ایک ایسے وقت جب پاکستان سے مبینہ طور پر اس کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کرنے والے مذہبی گروپوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، مذہبی بنیاد پر کی جانے والی انتہا پسندی کی حامی" ایک جماعت کو دارالحکومت میں اجتماع کے لیے اجازت دیے جانے سے حکومت پر تنقید میں شدت آئی ہے۔
اسلام آباد اپنی سر زمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف حالیہ برسوں سے جاری اس کی فوجی کارروائیوں میں ہزاروں شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مبصرین نے نواز شریف کی حکومت پر "دہرا معیار" اپنانے کا الزام عائد کرتے ہیں پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے عزم پر سوالات اٹھائے ہیں۔
اہلسنت والجماعت بھی ایسی سرگرمیوں سے منسلک ہے اور اس کے بعض راہنماؤں کو قانون مفرور بھی قرار دے چکا ہے۔
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں یہ مذہبی اجتماع بھی پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ "قومی لائحہ عمل" کے منافی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف رواں سال کے اوائل میں اس وقت سے تنقید کی زد میں ہیں جب پاناما کی ایک فرم "موسیک فونسیکا" افشا ہونے والی دستاویزات میں ان کے اہل خانہ کے نام بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو بیرون ملک بینک اکاؤنٹس کے مالک ہیں۔
نواز شریف اس وقت سے پارلیمان اور ٹی وی پر اپنے خطابات میں خود پر لگائے جانے والے بدعنوانی کے الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔ لیکن عمران خان کا اصرار ہے کہ وزیراعظم اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں لہذا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔