امریکی سینسس بیورو کے مطابق امریکہ میں آباد پاکستانیوں کی تعداد دو لاکھ دس ہزار جبکہ واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانے کے مطابق پانچ لاکھ ہے مگر امریکہ کی50 ریاستوں میں رجسٹرڈ سو سے زیادہ پاکستانی تنظیموں کے مطابق یہاں رہنے والے پاکستانیوں کے اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
(صفحے کے آخر میں اس رپورٹ کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیے۔)
آنے والوں کے سفر کی کہانی خواب، خواہشوں، بہت سی محنت اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے آج اور کل کو اچھا دیکھنے کی بے ضرر سی خوشی سے عبارت ہے ۔شخصی آزادیوں کی اس سر زمین پر، چاہے آپ ٹماٹر کی چٹنی اور پنیر والا پزا بنا کر قیمے والے نان کا مزہ لیتے ہوں، پرانی ٹیکسی چلاتے ہوں، یا وائٹ کالر جاب کرتے ہوں، اگر آپ پاکستانی ہیں تو چوبیس میں سے اٹھارہ، سولہ یا بارہ گھنٹے کی محنت کے دوران بھی، یہ کبھی نہیں بھولتے کہ امریکہ سے ہزاروں میل دور ایک چھوٹے سے ملک کے چھوٹے سے شہر، قصبے اور گاوں میں شب برات کیسے آتی ہے؟ اورشام غریباں کیسے اترتی ہے؟ زبان سے نا بلد، اخبار پڑھنے سے قاصر، سب کے لئے اچھا سوچنے والے یہ پاکستانی سادہ ضرور ہیں مگر پاکستان کے مسائل پر سوچتے ہیں اور اپنی رائے کے اظہار سے ہچکچاتے نہیں۔
منڈی بہاوالدین سے اپنے بیٹوں کے پاس امریکہ آنے والے شاد محمد کہتے ہیں کہ پاکستانی حکمرانوں میں قومی جذبے کی کمی ہے۔ ورجینیا کے ایک پاکستانی ریستوران میں کام کرنے والے کامران خان کا خیال ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل تعلیم میں نہیں، امن میں ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں ایک پیزا ریسٹورنٹ چلانے والے ناصر حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اپنے ہی اپنوں کاخون بہا رہے ہیں، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی طالبہ ثروت عباسی کہتی ہیں کہ پاکستان میں پالیسی میکرز کی آنکھوں پر پٹیاں اور کانوں میں روئی پڑی ہوئی ہے، نہ وہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں نہ سوچتے ہیں۔
بحر زمان بٹ دس سال سے پہلے راولپنڈی سے امریکہ آئے تھے، واشنگٹن ڈی سی میں کرائے کی ٹیکسی چلاتے انہیں چار سال ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اپنے خاندان کی سلامتی کی فکر انہیں بھی ہے، ان کا خیال ہے کہ سب سے بڑا جہاد اپنے نفس کے خلاف ہوتا ہے اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانے والے اسلام کے نام لیوا نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستانی قوم قیادت کے بحران کا شکار ہے، اور کسی سیاسی یا دینی جماعت کے پاس پاکستان کو مسائل سے نکالنے کا کوئی تیر بہدف نسخہ موجود نہیں۔ بہر زمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ دین کی طرف واپس آجائیں۔۔
مگرامریکہ آنے والےپڑھے لکھے اور اعلی عہدوں پر فائز پاکستانی اپنے ملک اور اس کے مسائل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ممتاز عالم گزشتہ بارہ سال سے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ہیں، اور پاکستان، بھارت، نیپال، اور جرمنی میں تعمیراتی انجنیئز کے طور پر تعینات رہے ہیں، لیکن 11 ستمبر 2001ء کے بعد ایک پاکستانی فارن آفیسر ہونے کے طور پر اپنی تعیناتی کے ملکوں میں پاکستانی اور مسلمان کمیونٹی کے قریب جانے کی اضافی ذمہ داری بھی نبھاتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام اور پارلیمنٹ کو خود یہ سوچنا ہوگا کہ ملک کو مسائل سے کیسے نکالنا ہے اور ملک کس طرف جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں فخر ہے کہ یہ ایک پاکستانی ہوتے ہوئے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ کبھی انہیں کوئی ایسا کام کرنے کو نہیں کہا گیا جو ان کے ضمیر کا بوجھ بنے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کو اگر امریکہ سے شکایات ہیں یا وہ پاکستان کے مسائل کے لئے کہیں نہ کہیں امریکہ کو بھی ذمہ دار سمجھتے ہیں تو شکایت کے بجائے امریکی حکومت کا حصہ بن کر اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں۔
ارم حیدر، محسن علی، آمنہ درانی اور نتاشا مرتضی۔ امریکہ میں پڑھنے والے یہ چاروں پاکستانی طالبعلم پاکستان کے لئے کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ میں لوگ ان کے ملک کے بارے میں اچھا سوچنے لگیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اس وقت پاکستان کے بارے میں تجسس اپنے عروج پر ہے، پاکستانی اس موقعے کو امریکی تھنک ٹینکس میں شامل ہونے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ تھنک ٹینکس ہی ہیں جن کی سفارشات کی روشنی میں امریکی پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ امریکی پالیسیوں کو پاکستان کےحق میں ہموار کرنے کے لئے امریکہ میں رہنے والے تعلیم یافتہ پاکستانی بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
واشنگٹن کے بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے منسلک ڈاکٹر سٹیفن کوہن کا کہنا ہے کہ پورے امریکہ میں کوئی ایک بھی ایسا تھنک ٹینک نہیں جوپاکستان میں سپیشلائز کرتا ہو، اس لئے امریکہ میں پاکستان کی آواز ایک ٹوٹی پھوٹی شکل میں ہی سنی جاتی ہے۔
واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پاکستان سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر نسیم اشرف کہتے ہیں کہ امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی دوسری اور تیسری نسل یہاں پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے مگر اسلام آباد کی پالیسی واضح ہے نہ ہی کوئی مالی وسائل مختص کئے گئے ہیں۔ مگر اٹلانٹک کونسل امریکہ کے جنوبی ایشیا سینٹر کے پہلے پاکستانی سربراہ شجاع نواز کا خیال ہے کہ پاکستان کا مقدمہ امریکہ میں لڑنے والے دانشور تیار کرنا صرف حکومت کا ہی کام نہیں بلکہ یہ پاکستانی سوسائٹی کا کام ہے کہ ایسے اداروں اور لوگوں پر سرمایہ لگائیں جو پاکستان کی سچی آواز غیر ملکی پلیٹ فارمز تک پہنچا سکیں۔
امریکہ کے خصوصی مندوب برائے پاکستان اور افغانستان رچرڈ ہولبروک کے مشیر اور بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ولی نصر کہتے ہیں کہ امریکہ میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی نوجوانوں کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ امریکی زندگی کے ہر شعبے میں اپنے ملک کا تاثر بہتر بنانے کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ مگریہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اس وقت امریکی تھنک ٹینکس میں پاکستانیوں کی تعداد انگلیوں پر گننے کے لئے بھی کافی نہیں اور جو یہاں کام کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد کے امریکہ میں پاکستان کے بارے میں مثبت سوچ پیدا کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔
اس رپورت کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیے:
حصہ اول
حصہ دوم
حصہ سوم