وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے سرکاری اداروں میں انسداد بدعنوانی کی مہم کے باضابطہ آغاز کا اعلان کیا ہے ۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بدعنوانی کے تدارک کی اس مہم میں ناصرف خفیہ کارروائیاں کی جائیں گی بلکہ عوام کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ سرکاری اداروں میں بدعنوان عناصر کی نشان دہی کرے۔
مہم کے خدوخال بیان کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سرکاری دفاتر میں شکایات بکس رکھے جانے کے علاوہ شہریوں کی سہولت کے لیے ٹیلی فون، موبائل کے ذریعے بھیجے جانے والے پیغامات یا ایس ایم ایس، اور ای میل کے ذریعے بھی شکایات وصول کی جائیں گی۔ وزارت داخلہ اس سلسلے میں ایک مخصوص ویب سائٹ بھی قائم کر رہی ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اگر کوئی سرکاری ملازم بدعنوانی کے الزام میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو اُس کے متعلقہ افسر کو بھی موقع پر گرفتار کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ بدعنوانی روکنے کی غرض سے دفاتر میں سرکاری اوقات میں ملازمین کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے کیوں کہ تحقیقات میں یہ بدعنوانی کے ایک اہم ذریعے کے طور پر سامنے آیا ہے۔
رحمن ملک نے بعض اہم سرکاری محکموں میں بدعنوانی کے خلاف جاری اندرونی چھان بین وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی نگرانی میں کرنے کا حکم دیا کیوں کہ اُن کے مطابق اندرونی تحقیقات کے دوران محکمے کا عملہ حقائق کی بجائے ذاتی تعلقات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ بدعنوانی کا خاتمہ چند روز میں نہیں کیا جا سکتا لیکن اُن کا کہنا تھا کہ حالیہ مہم انسداد بدعنوانی کے سلسلے میں پہلا قدم ہے اور مستقبل میں ایسے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ ”ہمارے پاس نا کوئی جادو ہے نا کوئی عمل کہ ہم پھونک ماریں اور ساری بدعنوانی ختم ہو جائے۔“
پاکستان کو حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے امداد فراہم کرنے والے ممالک پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ
وہ ان کی فراہم کردہ رقوم کے شفاف استعمال کو یقینی بنائے۔ عالمی برادری میں پائے جانے والی اس تشویش میں گذشتہ ماہ اُس وقت اضافہ ہو گیا تھا جب غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی میں اضافے کا انکشاف کیا۔