پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے وفاقی دارالحکومت میں مذہبی جماعت کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی اور پھر ملک کے بعض دیگر شہروں میں صورت حال کشیدہ ہونے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اس صورت حال سے تحمل سے نمٹنے کی تجویز دی ہے۔
سخت گیر موقف رکھنے والی مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک یارسول اللہ کے ہزاروں کارکنان رواں ماہ کے اوائل سے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیے بیٹھے تھے ۔ عدالتی حکم پر دھرنے کے شرکا کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہفتہ کی صبح جب کارروائی شروع کی تو انھیں مظاہرین کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی 'آئی ایس پی آر'کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے وزیر اعظم عباسی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی تجویز دی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ "آرمی چیف نے دونوں فریقین کو تشدد سے گریز کا مشورہ دیا کیونکہ یہ (تصادم) ملک کی یکجہتی اور مفاد میں نہیں ہے۔ "
دوسری طرف بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا کوئی بھی ادارہ قومی معاملے پر مشورہ دے سکتا ہے تاہم اس مشورے کی تشہیر کرنا شاید مناسب نا ہو۔
سیاسی امور کے تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "اس طرح کا مشورے کی جب تشہیر کی جاتی ہے تو اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حکومت ایسا (تحمل سے) نہیں کر رہی۔ حکومت تشدد کر رہی ہے جس کی وجہ سے آرمی چیف کو یہ کہنا پڑا۔ اس سے وہ لوگ جنہوں نے اسلام آباد کو مفلوج کر رکھا تھا اس سے یہ مطلب بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ جیسے ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت تو اس معاملے کو سلجھانے کے لیے تحمل سے کام لیتی رہی ہے اور صرف ہائی کورٹ کے کہنے پر انہیں اس دھرنے کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے ختم کرنے کی کوشش کی۔
ادھر وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ قانون کی عمل داری بحال کرنا تشدد نہیں ہے۔
"تشدد ہمیشہ وہ کرتے ہیں جو قانون کی خلاف وزری کرتے ہیں۔ قانون پر عمل درآمد کروانا تشدد نہیں ہوتا ہے۔ یقیناً جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہا جا سکتا ہے انہیں یہ مشورہ دیا گیا ہو گا۔ حکومت قانون پر عمل کر رہی ہے۔"
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی فوج کے ترجمان یہ کہہ چکے ہیں کہ فیض آباد دھرنے ختم کرنے کے لیے حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی فوج اس پر عمل کرے گی تاہم مناسب یہی ہے کہ اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔