اطلاعات کے مطابق، پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت امریکی صدر اور اُن کی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے غیر متوقع اور شدید الزامات کے حوالے سے سوچ بچار میں مصروف ہیں۔
باخبر ذرائع کے مطابق، بند کمرے میں جاری یہ سوچ بچار اُس بات چیت سے مختلف ہے جو کھلے عام کی جاتی ہے۔ پاکستان کے ٹیلی ویژن شوز میں سیاستدان اور مبصرین امریکی امداد اور امریکی دوستی کو جوشیلے انداز میں مسترد کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اسلامی جماعتیں سڑکوں پر امریکی پرچم کو نذر آتش کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہی ہیں۔
تاہم، یہ تمام روایتی نوعیت کے اقدامات کوئی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی فوجی قیادت اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اس سلسلے میں اب تک فوج کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ بڑی حد تک معتدل ہے اور پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے امریکہ کے ساتھ محض انٹیلی جنس معلومات شیئر کرنے کا سلسلہ بند کرنے کا علان کیا ہے۔ لیکن، امریکہ کے ساتھ رابطے جاری رکھنے کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان رچرڈ سنیلسائر کا کہنا ہے کہ امریکی سفارتخانے کو اس بارے میں پاکستانی حکام سے کوئی باضابطہ اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان نے ابھی تک افغانستان میں امریکی فوج کیلئے لاجسٹک سپورٹ ختم کرنے جیسا کوئی انتہائی قدم نہیں اُٹھایا۔ اُدھر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بھی کہا ہے کہ امریکہ کی فوجی اسٹیبلشمنٹ جنرل باجوہ کے ساتھ مستقل رابطے میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ حالیہ محاذ آرائی کی کیفیت ختم کرنے کیلئے پاکستانی فوج کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ بظاہر جنرل باجوہ کیلئے امریکی امداد کی بندش کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ اُن دہشت گردوں کے خلاف فوری ایکش کا امریکی مطالبہ ہے جو مبینہ طور پر افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ امریکہ نے اشارے دئے ہیں کہ اگر پاکستان اس امریکی مطالبے کو اہمیت نہیں دیتا تو وہ پاکستان پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسے ایک نئی سطح پر لیجانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکہ کی معروف تھنک ٹینک، ’یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ کے ایسوسئیٹ نائب صدر معید یوسف کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ کا آئندہ اقدام ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو ملنے والے قرضوں کو محدود کرنا، تجارتی پابندیاں عائد کرنا، سفارتی طور پر پاکستان کو تنہا کر دینا اور یک طرفہ طور پر پاکستان کے اندر کوئی بڑی یک طرفہ فوجی کارروائی کرنا ہو سکتا ہے اور اس حوالے سے حتمی اقدام کیلئے غالباً امریکہ نے پروگرام پہلے سے تیار کر رکھا ہے‘‘۔ معید یوسف کہتے ہیں کہ ’’صدر ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی کامیابی میں پاکستان بڑی رکاوٹ ہے‘‘۔
کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستانی فوج کے سپاہ سالار جنرل باجوہ خود کو ویسی ہی کیفیت میں محسوس کر رہے ہیں جس سے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نائن الیون کے فوراً بعد گزرے تھے۔ اُس وقت کے امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے جنرل پرویز مشرف کو دھمکی دی تھی کہ ’’اگر پاکستانی فوج نے افغانستان میں القائدہ کو ختم کرنے میں امریکہ کا ساتھ نہ دیا تو پاکستان کو ایسے بموں سے نشانہ بنایا جائے گا جن سے پاکستان پتھر کے زمانے کی طرف لوٹ جائے گا‘‘۔
امریکی الٹی میٹم کے بعد پرویز مشرف نے افغانستان میں امریکی فوج کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُس وقت پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ’’امریکہ سے محاذ آرائی کی صورت میں پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے‘‘۔
مشرف کا کہنا تھا کہ ’’اگر ہمیں دو دشواریوں میں سے ایک کو چننا ہو تو بہتر یہ ہے کہ ہم دونوں میں ایسی دشواری سے نمٹنے کا انتظام کریں جو نسبتاً کم شدید ہو‘‘۔ لہٰذا، موجودہ صورت حال میں جنرل باجوہ دو میں سے کس دشواری کو دور کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں؟ کیا وہ امریکہ کے ساتھ لمبے عرصے کی عداوت جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا پھر طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ویسے اقدامات کا فیصلہ کرتے ہیں جن کا مطالبہ امریکہ نے کیا ہے۔
دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ اپنے پیشرو، جنرل راحیل شریف، جنرل مشرف اور جنرل کیانی کی طرح امریکہ کے ساتھ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر، سمجھوتہ طے کرنے کا فیصلہ کریں گے؛ اور ایسے سمجھوتے میں وہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے اور بھارت کے ساتھ کشمیر کے تنازعے جیسے معاملات بھی شامل کرانے کی کوشش کریں گے۔ وہ امریکہ کو باور کرائیں گے کہ وہ اپنے مطالبات نرم کرے اور اس کے بدلے پاکستان امریکہ کیلئے کچھ کرنے پر راضی ہوگا۔
سردست امریکہ کی جانب سے اس سمت میں کوئی اشارے نہیں مل رہے ہیں۔ امریکہ میں بہت سے سیاسی مبصرین البتہ اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف تادیبی اقدامات کے نتائج امریکہ کیلئے اچھے نہیں ہوں گے۔ لیکن، امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کو مطلوبہ اقدامات کیلئے مجبور کرنے کی آخری حدوں تک جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔